Punjabi Kavita
Allah Yar Khan Jogi

Punjabi Kavita
  

Ganj-e-Shaheedan Allah Yar Khan Jogi

1

جس دم ہوئے چمکور میں سنگھوں کے اتارے ۔
جھلائے ہوئے شیر تھے سب غیز کے مارے ۔
آنکھوں سے نکلتے تھے دلیروں کے شرارے ۔
ستگور کے سوا اور غضب ناک تھے سارے ۔
غصے سے نظر جاتی تھی اپھواج-اے-ادواج پر ۔
تیغے سے نگاہ پڑتی تھی دشمن کے گلو پر ۔

(غیز=غصہ، شرارے=چنگیاڑے، غضب ناک=
غصے نال بھرے،اپھواج-اے-ادواج=ویری دی فوج)

2

جب دور سے دریا کے کنارے نظر آئے ۔
ڈوبے ہوئے سرسا میں پیارے نظر آئے ۔
یہ دیکھ کے بگڑے ہوئے سارے نظر آئے ۔
بفرے ہوئے ستگور کے دلارے نظر آئے ۔
کہتے تھے اجازت ہی نہیں ہے ہمیں رن کی ۔
مٹی تک اڑا سکتے ہیں دشمن کے چمن کی ۔

3

طوفاں-زدہاں درییا کو ابھی پار کرینگے ۔
ٹھوکر سے ہر اک موج کو ہموار کرینگے ۔
بد-عہد ستمگاروں سے پیکار کرینگے ۔
ہم دونوں ہی دس لاکھ کو فنار کرینگے ۔
دادی ہے کدھر، مائی کدھر، بھائی کہاں ہیں ۔
آنکھوں سے کئی خالصے پیارے بھی نہاں ہیں ۔

(موج=لہر، بد-عہد=وعدہ پورا نہ
کرن والے، پیکار=جنگ، فنار=اگّ وچ
سٹنا، نہاں=لکے ہوئے)

4

دھوکھا دییا ہر سنگھ کو پیماں-شکنوں نے ۔
بے-مہروں نے بے-دھرموں نے، ایماں-شکنوں نے ۔
جب اتنا کہا جل دییا اہساں-شکنوں نے ۔
پیشانی پِ بل ڈالے پریشاں-شکنوں نے ۔
تھے چیں-ب-جبیں لہر یا شیشے میں پڑی تھی ۔
ماتھے پے پشینا تھا یا افشاں سی جڑی تھی ۔

(پیماں-شکنں=وعدہ توڑن والے، جل=دھوکھا،
چیں-ب-جبیں=متھے تے تیوڑی، افشاں=
کنیاں)

5

اتنے میں مخاطب ہوئے ستگور گورو گوبند ۔
وہ صابر-او-شاکر وہ بہادر گورو گوبند ۔
رستے میں گنوا آئے تھے دو در گورو گوبند ۔
تھے غم کی جگہ شانتی سے پور گورو گوبند ۔
فرمائے وہ سب سے نہیں موقع یہ غضب کا ۔
پورا یہیں کلھ ہوگا، ارادہ میرے رب کا ۔

(صابر-او-شاکر=صبر شکر کرن والے،
در=موتی، غضب=غصہ)

6

جس خطے میں ہم کہتے تھے آنا یہ وہی ہے ۔
کلھ لٹ کے ہے جس جگہ سے جانا یہ وہی ہے ۔
جس جا پِ ہے بچوں کو کٹانا یہ وہی ہے ۔
مٹی کہ دیتی ہے ٹھکانا یہ وہی ہے ۔
اک مورچے میں پھر وہیں سرکار در آئے ۔
جا پہنچے اکالی وہیں ستگور جدھر آئے ۔

(خطے=علاقے، در=اندر)

7

جب کلء میں اتری تھی ستگور کی سواری ۔
واہگورو کی فتہ دلیروں نے پکاری ۔
وہ ہمہما شیروں کا وہ آواز تھی بھاری ۔
تھرا گیا چمکور ہوا زلزلہ تاری ۔
سکتے میں خدائی تھی تو حیرت میں جہاں تھا ۔
نارا سے ہوا چرخ بھی ساکن یہ گماں تھا ۔

(ہمہما=شیراں دی غرض، زلزلہ=بھچال،
تاری=چھا گیا، سکتے=سنّ، چرخ=اسمان،
ساکن=ٹھہر گیا)

8

خیمے کیئے استادہ وہیں اٹھ کے کسی نے ۔
کھولھی قمر آرام کو ہر ایک جری نے ۔
رہراسِ کا دیوان سجایا گورو جی نے ۔
ملجل کے شرے-شام بھجن گائے سبھی نے ۔
خانا کئی وقتوں سے میسر ن تھا آیا ۔
اس شام بھی شیروں نے کڑاکا ہی اٹھایا ۔

(استادہ=کھڑا کرنا، جری=دلیر،
میسر=ملنا)

9

کچھ لیٹ گئے خاک پے زیں-پوش بچھا کر ۔
پہرا لگے دینے کئی تلوار اٹھا کر ۔
گوبند بھی شب-باش ہوئے خیمہ میں جا کر ۔
دیکھا تو وہاں بیٹھے ہیں گردن کو جھکا کر ۔
'واہگورو'، 'واہگورو' ہے منہ سے نکلتا ۔
'ہے تو ہی تو! تو ہی تو! ہے منہ سے نکلتا ۔

(زیں-پوش=گھوڑے دی کاٹھی دا کپڑا،شب-باش=
رات نوں آرام کرنا)

10

جب ڈیڈھ گھڑی رات گئی زکرے-خدا میں ۔
خیمے سے نکل آ گئے سرکار ہوا میں ۔
قدموں سے ٹہلتے تھے مگر دل تھا دعا میں ۔
بولے: 'اے خداوند ! ہوں خوش تیری رضا میں ۔'
کرتار سے کہتے تھے گویا رو-ب-رو ہو کر ۔
'کلھ جاؤنگا چمکور سے میں سرخرو ہو کر ۔'

11

"میں تیرا ہوں، بچے بھی میرے تیرے ہیں مولٰی !
تھے تیرے ہی، ہیں تیرے، رہینگے تیرے داتا !
جس حالَ میں رکھے تو، وحی حالَ ہے اچھا !
جز شکر کے آنے کا زباں پر نہیں شکوہ !
لیٹے ہوئے ہیں خالصہ جی آج زمیں پر ۔
کس ترہ سے چین آئے ہمیں شاہے-نشیں پر !"

(جز=بنا، شاہے-نشیں=شاہی بسترا)

12

یہ کہ کے گورو لشکر-اے-خفتا میں در آئے ۔
پہرے پِ جواں اونگھتے اکثر نظر آئے ۔
یوں ہر جگہ خاموش گئے بے خبر آئے ۔
سوئے ہوئے بچے کے کریں جوں پدر آئے ۔
غرزِ کہ دبے پاؤں ٹہلنے لگے ستگور ۔
بھگتی سے مریدوں کی بہلنے لگے ستگور ۔

(خفتا=ستا، کریں=قریب،نیڑے، پدر=
پتا)

13

سافے کبھی سنگھوں کے اٹھاتے تھے زمیں سے ۔
کیس اس کے جو جھاڑے تو لی خاک اس کی زبیں سے ۔
سر ٹھیک کیئے، سرکے ہوئے بالش-اے-زینش سے ۔
ترتیب دی ہر چیز کو لا لا کے کہیں سے ۔
ہاشا ! کسی مرشد میں یہ ایسار نہیں ہے ۔
یہ پیار کسی پیر میں زنہار نہیں ہے ۔

(بالش-اے-زینش=کاٹھی دا سرھانا، ایسار=
پراپکار، قربانی، زنہار=کداچت)

14

تھے دیکھتے ہر اک کو گورو دیدا-اے-تردا سے ۔
الفت کی نگاہوں سے محبت کی نظر سے ۔
باندھے ہوئے پٹکہ پیے-کھدمت تھے قمر سے ۔
تھا جاگتا کوئی تو سرک جاتے تھے سر سے ۔
نفرت تھی یہاں تک شہے-والا کو ریا سے ۔
نیکی کو چھپاتے تھے سدا ما-او-شما سے ۔

(پیے-کھدمت=سیوا مگن، شہے-والا= اچّ
پاتشاہ، ریا=دکھاوا، ما-او-شما=
اسیں تسیں،عامَ آدمی)

15

جن سنگھوں نے کلھ موت کے ساحل تھا اترنا ۔
کلھ صبح تھا جن کھالسوں نے جنگ میں مرنا ۔
بالیں سے شہیدوں کے ہوا جبکِ گزرنا ۔
مشکل ہوا اس جا سے قدم آگے کو دھرنا ۔
چوماں کبھی حلقوم دہن چومنے بیٹھے ۔
جب پائتی آئے تو چرن چومنے بیٹھے ۔

(ساحل=کنارہ، بالیں=سر ول،
حلقوم=گل، دہن=منہ، پائتی=پیند)

16

فرمائے : سحر سو کے یہ ہشیار ن ہونگے ۔
اب ہو کے یہ پھر نیند سے بے دار ن ہونگے ۔
ہم ہونگے مصیبت میں مگر یار ن ہونگے ۔
یہ سنگھ پیارے یہ وفادار ن ہونگے ۔
سوئے ہوئے شیروں کو گلے اپنے لگایا ۔
ستگور نے دلیروں کو گلے اپنے لگایا ۔

(سحر=سویر، بے دار=جاگنا)

17

انصاف کرے جی میں زمانہ تو یقیں ہے ۔
کہ دے گورو گوبند کا ثانی ہی نہیں ہے ۔
یہ پیار مریدوں سے یہ شفقت بھی کہیں ہے ؟
بھگتی میں گورو عرش ہے سنسار زمیں ہے ۔
الفت کے یہ جذبے نہیں دیکھے کہیں ہمنے ۔
ہے دیکھنا اک بات، سنے بھی نہیں ہمنے ۔

(شفقت=کرپا)

18

کرتار کی سوگند ہے، نانک کی قسم ہے ۔
جتنی بھی ہو گوبند کی تاریف وہ کم ہے ۔
ہرچند میرے ہاتھ میں پور زور قلم ہے ۔
ستگور کے لکھوں، وصف، کہاں تابعے-رکمے ہے ۔
اک آنکھ سے کیا، بلبلا کل بہر کو دیکھے !
ساحل کو، یا منجھدھار کو، یا لہر کو دیکھے !

(وصف=گن، تابعے-رکمے=لکھن دی طاقت،
بہر=سمندر)

19

مداح ہوں نانک کا، ثنائ-خواں ہوں تو تیرا ۔
پنہاں ہوں تو تیرا ہوں، نمایاں ہوں تو تیرا ۔
شاداں ہوں تو تیرا ہوں، پریشاں ہوں تو تیرا ۔
ہندو ہوں تو تیرا ہوں، مسلماں ہوں تو تیرا ۔
کربانییاں کیں تونے بہت راہے-حدا میں ۔
درجہ ہے تیرا خاص ہی خاسانے-خدانے میں ۔

(مداح=وڈیائی کرن والا، ثنائ-خواں=
تعریف کرن والا، پنہاں=لکیا ہویا،
شاداں=خوش، راہے-حدا= سچ دا راہ)

20

اے ستگورو گوبند تو وہ عبر-اے-کرم ہے ۔
اے ستگورو گوبند تو وہ عالی-ہمم ہے ۔
ثانی تیرا دارا تھا سکندر ہے ن جم ہے ۔
کھاتہ تیرے کرموں کی فریدوں بھی قسم ہے ۔
حاتم کا سخاوت سے اگر نام بھلایا ۔
جرئت سے ہمیں رستم-او-بہرام بھلایا ۔

(عبر-اے-کرم=رحمت دا بدل، عالی-
ہمم=بہت ہمت والا، سخاوت=دان)

21

کس شان کا رتبہ تیرا اﷲ-او-غنیھا ہے ۔
مسکین غریبوں میں دلیروں میں جری ہے ۔
'انگد' ہے 'امرداس' ہے 'ارجن' بھی توہی ہے ۔
'نانک' سے لے تا 'تیغ بہادر' تو سبھی ہے ۔
تیرتھ نہیں کوئی روئے روشن کے برابر ۔
درشن تیرے دس گروؤں کے درشن کے برابر ۔

(اﷲ-او-غنیھا=وڈا تے بے پرواہ ربّ، مسکین=
ننگ،نتانا، جری=بہادر، روئے=منہ)

22

کس صبر سے ہر ایک کڑی تو نے اٹھائی ۔
کس شکر سے ہر چوٹ کلیجے پِ ہے کھائی ۔
والد کو کٹایا، کبھی اولاد کٹائی ۔
کی فقر میں، فاقے میں، ہزاروں سے لڑائی ۔
ہمت سے تری سب تھے سلاطین لرزتے ۔
جرئت سے تری لوگ تھے تا چین لرزتے ۔

(فقر=فقیری، سلاطین=سلطان)

23

آدا نے کبھی تجھ کو سمبھلنے ن دییا تھا ۔
آرام سے پہلو کو بدلنے ن دییا تھا ۔
گلشن کو تیرے پھولنے پھلنے ن دییا تھا ۔
کانٹا دلے-پور-خوں سے نکلنے ن دییا تھا ۔
جس رن میں لڑا بے-سر-او-سامان لڑا تو ۔
سو سنگھ لیئے لاکھوں پِ جا جا کے پڑا تو ۔

(آدا=دشمن، بے-سر-او-سامان=نہتھا)

24

زک دی کبھی نواب کو راجوں کو بھگایا ۔
میداں میں مکابل جو ہوا مار گرایا ۔
گھمسان میں جب آن کے تیغوں کو پھرایا ۔
پھر کر دییا اک آن میں لشکر کا سپھایا ۔
کلھ کہتے ہیں چمکور میں پھر کھیت پڑیگا ۔
گوبند سحر ہوتے ہی لاکھوں سے لڑیگا ۔

(زک=نقصان، کھیت=لڑائی)

25

باقی تھی گھڑی رات گورو خیمے میں آئے ۔
شاہزادے یہاں دونوں ہی سوتے ہوئے پائے ۔
دونوں کے رخ-اے-پاک سے گیسو جو ہٹائے ۔
افلاک نے شرما کے مہ-او-مہر چھپائے ۔
ستگور نے دہن جب دہن-اے-پاک پِ رکھا ۔
کملا کے ہر اک پھول نے سر خاک پِ رکھا ۔

(رخ-اے-پاک=پوتر منہ، گیسو=کیس،
افلاک=اسماناں نے، مہ-او-مہر=
چن سورج، دہن=منہ)

26

مرگھٹ کی ترہ اس گھڑی سنسان زمیں تھی ۔
خاموشی سی چھائی ہوئی تا عرش-اے-بریں تھی ۔
ویرانی تھی ایسی ن اداسی یہ کہیں تھی ۔
آفت تھی، بلا تھی، یہ کوئی رات نہیں تھی ۔
دنییا پے تھا چھایا ہوا اس ترہ اندھیرا ۔
لکّ گیند پِ مٹی کی جس ترہ ہو پھیرا ۔

(عرش-اے-بریں=اچا آکاش)

27

تارے بھی چمکتے تھے مگر رات تھی کالی ۔
گھٹ گھٹ کے ہوا ماہے-دو-ہفتہ تھا حلالی ۔
انگشت دہن میں تھی فلک نے گویا ڈالی ۔
افسوس میں ستگور کے یہ صورتَ تھی بنا لی ۔
حسرت سے سبھی کلغیؤں والے کو تھے تکتے ۔
آنکھوں میں ستاروں کے بھی آنسو تھے جھلکتے ۔

(ماہے-دو-ہفتہ=پنیا جاں چودھویں دا چن،
حلالی=نواں چن، انگشت=انگلی، دہن=
منہ، فلک=اسمان)

28

سوئے ہوئے بچوں کو کہا سر کو پکڑ کر ۔
چل دوگے ابا کو مصیبت میں جکڑ کر ۔
تھی زندگی لکھی ہوئی قسمت میں اجڑ کر ۔
پھر ملنے کا وادا تو کیئے جاؤ بچھڑ کر ۔
تھے چار، ہو اب دو ہی، سحر یہ بھی ن ہونگے ۔
ہم صبر کرینگے جو اگر یہ بھی ن ہونگے ۔

29

فرماتے تھے : "کلھ دونوں ہی پروان چڑھوگے !
دکھ بھوگینگے ہم، خلد میں تم چین کروگے !
ہوتے ہی سحر داغ-اے-جدائی ہمیں دوگے !
سپنے میں خبر آ کے کبھی باپ کی لوگے ؟
اے پیارے اجیت ! اے میرے ججھار پیارے ۔
ہم کہتے ہیں کچھ، سنتے ہو دلدار پیارے ۔

(خلد=سرگ)

30

ماسوم ہو، مظلوم ہو، دنییا سے بھلے ہو !
لخت-اے-دل-اے-گوبند ہو نازوں سے پلے ہو !
دنییا ہوئی اندھیر، جب آنکھوں سے ٹلے ہو !
گھر بار لٹا، باپ کٹا، تم بھی چلے ہو !"
بچے اسی حالت میں ابھی سوئے پڑے تھے ۔
تھا دیدا-اے-تردا ستگورو، بالیں پِ کھڑے تھے ۔

(دیدا=اکھاں، بالیں=سر ولّ)

31

اک بار سوئے-فلک منہ کرکے وہ بولے :-
"ہونی ہے جو کچھ عاشقِ-صادق پِ وہ ہو لے ۔
برچھی، ہے اجازت تو سینے میں گڑو لے ۔
سر کاٹ کے تن چاہے تو نیزے میں پرو لے ۔
ہے شوق شہادت کا ہمیں سب سے زیادہ ۔
سو سر بھی ہوں قرباں تو نہیں رب سے زیادہ ۔

(سوئے-فلک=آکاش ولّ، عاشقِ-صادق=
سچا پریمی)

32

"میننے ہی برس چودہ کا بنباس تھا جھیلا ۔
میں وہ ہوں جسودھا کی جو آغوش میں کھیلا ۔
مارا تھا کنس میننے تھا ارجن میرا چیلا ۔
کیروں سے لڑا میں مہابھارت میں اکیلا ۔
تھا بدھ بھی بعد میں شنکر بھی بنا ہوں ۔
نانک کے بھی چولے میں میں بابرک کو ملا ہوں ۔

(آغوش=گود)

33

"اکبر بھی پیادا مرے دربار میں آیا ۔
برکت نے مری فتہ تھا آسام کرایا ۔
میننے بت-او-بتکھانا خدائی کو بھلایا ۔
بھگوان کا گھر میننے ہی مسجد تھا بنایا ۔
بالو کی تپی ریت مرے تن پِ پڑی تھی ۔
میں وہ ہوں ابلنے پِ بھی افّ تک نہیں کی تھی ۔

34

"ہمت کا مری آپ میاں میر ہے شاہد ۔
عظمت کا مری شاہ جہانگیر ہے شاہد ۔
سر جس سے کٹا دلی میں شمشیر ہے شاہد ۔
تو سب سے زیادہ فلک-اے-پیر ہے شاہد ۔
جب ظلم سے ظالم نے جہاں پیس دی دییا تھا ۔
ہم نے ہی دھرم کے لیئے پھر سیس دییا تھا ۔

(شاہد=گواہ، فلک-اے-پیر=بڈھا آکاش)

35

"جب جب بھی ضرورت ہوئی بندوں کو ہم آئے ۔
ظالم کا کییا خاتمہ مظلوم بچائے ۔
چڑییوں سے اگر چاہا تو پھر باز تڑائے ۔
دیکھا جسے ہکدار اسے تخت دلائے ۔
کام آئے فقیروں کے تو شاہوں کے بھی آئے ۔
دشمن کے بھی آئے، ہوا-خاہوں کے بھی آئے ۔

(ہوا-خاہوں=دوست)

36

"لکھ لٹ ہے ہمیشہ سے ہی سرکار ہماری ۔
خالی نہیں جاتا ہے جو آتا ہے بھکھاری ۔
دنییا میں ہیں ہم، باغ میں جوں بادے-بہاری ۔
پیاری ہمیں کرتار کی مخلوق ہے ساری ۔
سکھ جان سے پیارے ہمیں، بچوں سے سوا ہیں ۔
تو ہندو-او-مسلم پِ بھی در فیض کے وا ہیں ۔

(بادے-بہاری=بسنت رتّ دی ہوا، مخلوق=
لوک، فیض=رحمت)

37

"مردانے کو ہم نے ہی رفاقت میں تھا رکھا ۔
قولاں کو بھی ہم نے حفاظت میں تھا رکھا ۔
جس نے بھی قدم اپنی جماعت میں تھا رکھا ۔
محفوض اسے ہم نے ہر آفت میں تھا رکھا ۔
اب بھی وہی عادت وہی نیت ہے ہماری ۔
یکساں حرم-او-دیر سے شفقت ہے ہماری ۔

(رفاقت=ساتھ، حرم-او-دیر=مسجد
مندر، شفقت=محبت)

38

"مرزے کئی سیدے سے بھی قربان ہوئے ہیں ۔
ماموں سے تصدق بھی کئی خان ہوئے ہیں ۔
چندو سے گنگو سے بھی شیطان ہوئے ہیں ۔
بازید سے بھی بازّ بے ایمان ہوئے ہیں ۔
ہندو ہیں سب اچھے ن مسلمان ہیں اچھے ۔
دل نیک ہیں جن کے، وہی انسان ہیں اچھے ۔"

(تصدق=قربان)

39

تاروں سے تھا آکاش چراغوں بھری تھالی ۔
تھی رخ پِ بڑے بتّ کے پڑی نور کی جالی ۔
اب جل چکی تھی چرخ کے مندر میں دیوالی ۔
تھی پوج چکی زہرا-جبیں پوجنے والی ۔
پھر شرق کی جانب سے سفیدی نکل آئی ۔
زلمات میں اک نور کی ندی ابل آئی ۔

(چرخ=اسمان، زہرا-جبیں=شکر گریہہ
ورگا متھا بھاوَ سوہنا متھے والی، شرق=
پورب، زلمات=ہنیرا)

40

اس زور سے سیلاب ہوا نور کا جاری ۔
کف کی ترہ بہنے لگی انجم کی کیاری ۔
تارے نے سحر کے ابھی ہمت ن تھی ہاری ۔
طوفان ہوا ماہ کی کشتی پِ بھی تاری ۔
اس سیل سے سیارے سبھی اوج پِ ٹوٹے ۔
جس ترہ حباب آ کے سرے-موج پِ ٹوٹے ۔

(کف=جھگّ، انجم=تارے، ماہ=چن، سیل=
ہڑ، سیارے=ستارے، اوج=اچائی، حباب=
بلبلا، سرے-موج=لہر اتے)

41

جتنی تھی کماں نور کی کھنچتی چلی آتی ۔
تھی ایتنی سیاہی پے سفیدی ملی جاتی ۔
ہر ایک کرن تیر کی تیزی تھی دکھاتی ۔
نیزوں سے شواؤں کے چھنے چرخ کی چھاتی ۔
خورشید نکلنے کو ہی تھا اب کوئی دم میں ۔
ہونے کو تھا پھر حشر بپا عربو-ازمو میں ۔

(خورشید=سورج، حشر=قیامت، عربو-
عظم=عرب تے ایران)

42

بے دار تھے سب خالصہ جی ہو چکے کب کے ۔
نھا دھو کے تھے بیٹھے ہوئے دھیان میں ربّ کے ۔
دیوان بڑی شان کا جلوے تھے غضب کے ۔
خود رکھتے تھے تشریف گورو سامنے سب کے ۔
تھے پاس اجیت اور تھے ججھار پیارے ۔
گریائی کے چڑھتے ہوئے دریا کے کنارے ۔

43

گدی پے پتا بیٹے بھی مسند کے کریں تھے ۔
دو چاند کے ٹکڑوں میں گورو ماہ-اے-مبیں تھے ۔
تھے نور سے تن پیکر-اے-خاکی نہیں تھے ۔
شاہزادوں سے شہِ-شاہ سے شہزادے حسیں تھے ۔
امامو پِ کلغی کا عجب ترا سزا تھا ۔
اک اونکار صاف گورمکھی میں لکھا تھا ۔

(مسند=گدی، ماہ-اے-مبیں=پرتکھ چند،
پیکر-اے-خاکی=مٹی دے تن، امام=
دستار)

44

پیشانی-اے-پور-عابر پِ یوں کیس تھے کارے ۔
سنبل کا گویا کھیت تھا دریا کے کنارے ۔
ابرو طلے آنکھیں تھیں یا جنگل میں چکارے ۔
وہ ناک کا نقشہ جو ن مانی بھی اتارے ۔
ان کانوں کی خوبی اسے حیرت میں جکڑ لے ۔
دیکھے انھیں بہزاد تو قان اپنا پکڑ لے ۔

(پیشانی-اے-پور-عابر=رونق والا متھا،
سنبل=بالچھڑ گھاہ، چکارے=باراں سنگے،
مانی تے بہزاد=مشہور چترکار)

45

دو چاند کے ٹکڑے ہیں یہ رخسار نہیں ہیں ۔
سرخ ہونے پِ بھی نور ہیں یہ نعر نہیں ہیں ۔
اب آگے دہن ملنے کے آثار نہیں ہیں ۔
جوگی جسے پا لے یہ وہ اسرار نہیں ہیں ۔
ہوٹوں کے مکابل میں نبات ہو نہیں سکتی ۔
لب ملتے ہیں شیرینی سے بات ہو نہیں سکتی ۔

(رخسار=گلھاں، نعر=اگّ، آثار=لچھن،
اسرار=بھید، نبات=مشری، شیرینی=
مٹھاس)

46

چہرا تھا مہے-چار-دہم ریش تھی ہالہ ۔
موچھیں تھیں یا خط نور کی مستر پِ تھا کالا ۔
کہتا لب-اے-لالی کو تھا ہر دیکھنے والا ۔
کستوری کے جنگل میں کھلا ہے گلے-لالا ۔
گردن پِ روئے-شاہ کی تمثیل کیا لکھوں ۔
تھا پیڑھے پِ گرنتھے-مقدس کھلھا لکھوں ۔

(مہے-چار-دہم=چودھویں دا چن، ریش=داڑھا،
ہالہ=پروار،چانن دا چکر، خط=لکیر،
مستر=پیمانہ، گلے-لالا=پھلّ دا ناں،پوست،
روئے=منہ، تمثیل=اپما، مقدس=پوتر)

47

داڑھی تھی یا کہ مسہفے رخ کا غلاف تھا ۔
کالے اچھاڑ پر جو کھلا صاف صاف تھا ۔
شانوں کی سج کا غیر کو بھی ایتراف تھا ۔
بازو کے بل کا غلغلا جا پہنچا قاف تھا ۔
قوت میں دیوَ جچتے ن جن تھے نگاہ میں ۔
بخشا تھا حق نے زور وہ بازو-اے-شاہو میں ۔

(مسہف=کتاب، شانوں=موڈھیاں دی، قاف=
پہاڑ دا ناں، غلغلا=مننا،ہنگھارا)

48

کہنی گٹھی ہئی تھی کلائی بھری ہوئی ۔
قوت سے یہ بھی اور تھی وہ بھی بھری ہوئی ۔
پنجے میں پانچ شیروں کی کسّ تھی بھری ہوئی ۔
انگلی کی پور پور میں بجلی بھری ہوئی ۔
سینہ مثال آئینے کی پاک صاف تھا ۔
ستگور کے دشمنوں کو بھی یہ ایتراف تھا ۔

49

یہ پشتے-پاکے، پشتے-پناہے-جہانے ہے ۔
سکھوں کو اس کا فخر ہے سنگھوں کو مان ہے ۔
بچتی اسی کی سایہ میں، بیکس کی جان ہے ۔
ہندوستاں کی ڈھال یہی بیغمان ہے ۔
جس سر پِ چھائی اس پِ پھر آفت گری نہیں ۔
ہے چرخ بھی گواہ یہ رن میں پھری نہیں ۔

(پشتے-پناہے-جہانے=دنیاں دا سہارا،
بیکس=بے سہارا)

50

کھولھے گرنتھ-اے-پاکنتھ کو بیٹھے ہزور تھے ۔
اپدیش سن کے ہو چکے سب کو صرور تھے ۔
جتنے بھی سامعین وہ نزدیک-او-دوریک تھے ۔
ان سب کے رخ پِ نور کے پیدا ظہور تھے ۔
تاثیر تھی زباں میں یہ طاقت بیان میں ۔
روح پھنک گئی تھی دھرم کی اک اک جوان میں ۔

(سامعین=سروتے، ظہور=پرگٹاؤ، تاثیر=اثر)

51

دیوان کا ابھی ن ہوا اختتام تھا ۔
گردش میں ابھی بادا-اے-عرفاں کا جام تھا ۔
اتنے میں آ کے کہنے لگا اک غلام تھا ۔
پہرے پِ جو کھڑا ہوا بالا-اے-باما تھا ۔
بولا : ادو کی فوج ہے گھیرے ہسار کو۔
کیا حکم اب ہزور کا ہے جاں-نثار کو ۔

(اختتام=سماپتی، بادا-اے-عرفاں=
آتم گیان دی شراب، بالا-اے-باما=
کوٹھے اتے، ادو=ویری، ہسار=گڑھی)

52

ارشاد ہو تو سب کو اکیلا بھگا کے آؤں ۔
اجمیر چند آن میں قیدی بنا کے آؤں ۔
بازید خاں کا سر بھی ابھی جا کے میں اڑاؤں ۔
اک سنگھ ایک لاکھ پِ غالب ہوا دکھاؤں ۔
شاباش کہ کے ستگورو فوراً کھڑے ہوئے ۔
زرئت پِ پہریدار کی خوش بڑے ہوئے ۔

(ارشاد=حکم، غالب=بھارو)

53

خیمے کو اپنے اپنے رواں پھر جواں ہوئے ۔
ہتھیار کس کے اوپچی شیر-اے-ییاں ہوئے ۔
جب ککلا میں بلند گورو کے نشاں ہوئے ۔
سامان-اے-جنگان دیکھ کے سب شادماں ہوئے ۔
سنگھوں کی فوج ہو چکی آہن میں غرق تھی ۔
تھے سر پِ خود بر میں زرہ تا-با-فرق تھی ۔

(اوپچی=ہتھیار بند یودھے، ییاں=غصیل،روہلے،
شادماں=خوش، آہن=لوہا، خود=لوہے دی ٹوپی،
زرہ=کوچ، تا-با-فرق=سر تکّ)

54

خیمے سے لیس ہو کے اکالی نکل پڑے ۔
خنجر اٹھایا، تیغ سمبھالی، نکل پڑے ۔
لے کر تفنگ باز دنالی نکل پڑے ۔
اتنے میں غل ہوا شہے-عالی نکل پڑے ۔
خورشید دیکھ سرور-اے-فوج-اے-اکال کو ۔
کبل-از-دپہر شرم سے پہنچا زوال کو ۔

(تفنگ=بندوق، غل=رولا، شہے-عالی=مہان
بادشاہ، خورشید=سورج، سرور=سردار،
کبل-از-دپہر=دوپہر توں پہلاں،
زوال=ڈھلنا)

55

جس جا کییا ہزور نے جا کر کیام تھا ۔
چمکور کی گڑھی میں یہ اک اونچا بام تھا ۔
اس جا سے چار کونٹ کا نظارہ عامَ تھا ۔
دکھتا یہاں سے لشکر-اے-آدار تمام تھا ۔
اسوار ہی اسوار پھیلے ہوئے تھے رن میں ۔
پیادے تھے یا تھی آدمی-گھاسی اگ پڑی بن میں ۔

(لشکر-اے-آدار=ویری دل، آدمی-گھاسی=
آدمی دی شکل ورگی گھاہ)

56

ستگور نے موقع موقع سے سب کو بٹھا دییا ۔
ہر برج پِ فصیل پِ پہرا لگا دییا ۔
یہ مورچہ اسے، اسے وہ دمدما دییا ۔
سنگھوں کا اک ہسار قلعے میں بنا دییا ۔
دیوار-او-دربار پِ، پشتوں پِ جب سنگھ ڈٹ گئے ۔
ڈر کر مہاسرین سبھی پیچھے ہٹ گئے ۔

(فصیل=دیوار، ہسار=قلعہ، مہاسرین=
گھیرے والے)

57

فرمائے کلغیدھر کہ اب اک اک جواں چلے ۔
پا پا کے حکم بھیڑوں میں شیر-اے-زیاں چلے ۔
بچ کر ادو کے داؤ سے یوں پہلواں چلے ۔
دانتوں میں جیسے گھر کے دہن میں زباں چلے ۔
گھستے ہی رن میں جنگ کا پلہ جھکا دییا ۔
جس سمت تیغ تول کے پہنچے بھگا دییا ۔

(ادو=ویری، دہن=منہ، سمت=طرف،دشا)

58

ایک ایک لاکھ لاکھ سے میدان میں لڑا ۔
جس جا پِ سنگھ اڑ گئے، جھنڈا وہاں گڑا ۔
چشم-اے-فلک نے تھا جو ن دیکھا وہ رن پڑا ۔
گھوڑے پِ جھومتا اک اکالی جواں بڑھا ۔
غل مچ گیا جہ پانچ پیاروں میں ایک ہے ۔
بے-مثال ہے شجاع، ہزاروں میں ایک ہے ۔

(شجاع=بہادر)

59

چلائے بازّ لو وہ دیا سنگھ جی بڑھے ۔
کھانڈا پکڑ کے ہاتھ میں جیوتّ بلی بڑھے ۔
ستگور کے باغ کے ہیں یہ سروے-سہیے بڑھے ۔
لاشوں کے پاٹنے کو سفر جنتی بڑھے ۔
ان سا دلیر کوئی نہیں ہے سپاہ میں ۔
سر نظر کر چکے ہیں، یہ مولٰی کی راہ میں ۔

(سروے-سہیے=سرو ورگے، نظر=بھیٹا)

60

محکم کی شکل دیکھ کے لہو نچڑ گیا ۔
دھبہ ادو کے جامہ-اے-جرئت پے پڑ گیا ۔
پٹخا مروڑ کر اسے ہتھے جو چڑھ گیا ۔
دہشت سے ہر جوان کا ہلییا بگڑ گیا ۔
صاحب کو دیکھ مسخ خط-او-خال ہو گئے ۔
ڈر سے سفید زالموں کے بال ہو گئے ۔

(مسخ خط-او-خال=منہ مہاندرا بگڑنا)

61

جس سمت غل مچا تھا ادھر جب نگاہ کی ۔
آواز صاف آنے لگی آہ ! آہ ! کی ۔
اک خالصے نے حالت-اے-لشکر تباہ کی ۔
رن میں کہیں جگہ ن رہی تھی پناہ کی ۔
بھاگو کہ اب بچاؤ کی صورتَ نہیں رہی ۔
آئے دھرم تو جنگ کی ہمت نہیں رہی ۔

62

لاکھوں کو قتل کرکے پیارے گزر گئے ۔
ایک ایک کرکے خالصے سارے گزر گئے ۔
صدہا فنا کے گھاٹ اتارے گزر گئے ۔
بھس میں لگا کے آگ شرارے گزر گئے ۔
زخموں سے سنگھ سورمے جب چور ہو گئے ۔
سردار سر کٹانے پے مجبور ہو گئے ۔

(شرارے=چنگیاڑے)

63

فوارا-اے-خونرا ہر ہر بن-اے-مو سے رواں ہوا ۔
زخموں سے چور چور اک اک جواں ہوا ۔
کھا کھا کے تیر سنگھ ہر اک ناتواں ہوا ۔
سر تن پے شوق-اے-قتل میں بار-اے-گراں ہوا ۔
لاکھوں کی جان لے کے دلیروں نے جان دی ۔
ستگور گورو گوبند کے شیروں نے جان دی ۔

(بن-اے-مو=روماں دی جڑھ، ناتواں=کمزور،
بار-اے-گراں=بھاری بوجھ)

64

اے طبع-اے-رسا آج دکھا اپنی رسائی ۔
اے تیغ-اے-سخن تو بھی بتا اپنی صفائی ۔
شہباز نے میرے کبھی منہ کی نہیں کھائی ۔
ہیں درد-او-اثر خیر سے دونوں سگے بھائی ۔
خاک اڑنے لگے بہر میں گر آہ کروں میں ۔
گلخن بنے گلزار اگر واہ کروں میں ۔

(طبع-اے-رسا=رنگ تے آئی طبیعت،
بہر=سمندر، گلخن=بھٹھی)

65

گلشن میں چہک مجھ سے ہزاروں نے اڑائی ۔
گلبن میں مہک مجھ سے ہی ساروں نے اڑائی ۔
بجلی نے تڑپ زو ہے ستاروں نے اڑائی ۔
جوگی سے کھٹک بن میں ہے خاروں نے اڑائی ۔
نشتر کئی رکھ دیتا ہوں، ہر مصرعہ-اے-ترسرا میں ۔
کانٹا ہوں جبھی گلشن-اے-آلمشن کی نظر میں ۔
کانٹا ہوں جبھی گلشن-اے-آلمشن کی نظر میں ۔

(گلبن=گلاب دا بوٹا، زو(زوئ)=چمک،
مصرعہ-اے-ترسرا=چنگا شعر؎، عالم=سنسار)

66

میداں میں ادو میری ہوا کو نہیں پہنچا ۔
شبدوز-اے-سخنز کے سمے-پاے کو نہیں پہنچا ۔
تا عرش گیا تب-اے-رسا کو نہیں پہنچا ۔
بندہ کوئی جس ترہ خدا کو نہیں پہنچا ۔
خاما تو نہیں ہاتھ میں موسیٰ کا عصا ہے ۔
فرؤن-اے-ادو کی میری مٹھی میں قضاع ہے ۔

(ادو=دشمن، شبدوز-اے-سخنز=کویتا
دا گھوڑا، سمے-پاے=پیر دا صم، خاما=
قلم، عصا=ڈنڈا، قضاع=موت)

67

اشعار سے مردوں کو بھی زندہ کییا میننے ۔
کتنے ہی مریزوں کو مسیحا کییا میننے ۔
اردو-اے-معلا کو مجلا کییا میننے ۔
ناپید تھا جو رنگ وہ پیدا کییا میننے ۔
تہسیں لییا کرتا ہوں ٹوٹے ہوئے دل کی ۔
بس عشقَ کے مارے ہوئے لوٹے ہوئے دل کی ۔

(اردو-اے-معلا=مہان اردو زبان،
مجلا=چمکدار، تہسیں=شاباش)

68

جس دل کو نہیں عشقَ-اے-حقیقی سے سروکار ۔
پتھر کا وہ ٹکڑا ہے وہ دل تو نہیں زنہار ۔
خالق کا پیارا ہے جو خلقت کو کرے پیار ۔
اتنا ہے فقط کافر-او-دیندار کا مئیار ۔
سکھی بھی سکھاتی ہے فنا ذات میں ہو جا ۔
پیرو گورو نانک کا ہر اک بات میں ہو جا ۔

(زنہار=بالکل، کافر-او-دیندار=
منمکھ گرمکھ، ناستک آستک)

69

مل شیخ کو اے سنگھ تو مردانہ سمجھ کر ۔
واہگرو کی شمع کا پروانہ سمجھ کر ۔
کر توف-اے-حرم بھی در-اے-جانانا سمجھ کر ۔
کانسی میں بھی رام کا کاشانا سمجھ کر ۔
واہگرو کی فتہ تو مندر میں گجا دے ۔
نارا ست سری اکال کا مسجد میں لگا دے ۔

(توف-اے-حرم=کعبے دی پرکرما، در-اے-
جانانا=پریتم دا بوہا، کاشانا=آلھنا)

70

جب تک تیری نظروں میں کوئی غیر ہے باقی ۔
تب تک ہی تمیز-اے-حرم-او-دیر ہے باقی ۔
دے شیخ-او-برہمن کو جو کچھ بیر ہے باقی ۔
کہتے ہیں گورو شر ہے فنا، خیر ہے باقی ۔
نیکی ہی وہ دولت ہے کبھی چھٹ نہیں سکتی ۔
سرہند تو لٹ سکتا ہے یہ لٹ نہیں سکتی ۔

(تمیز-اے-حرم-او-دیر=مندر مسجد دی
پچھان، شر=برائی، خیر=نیکی)

71

توحید کے پرچار سے سب نیکییاں کم ہیں ۔
محتاج اسی چیز کے اب دین-او-دھرم ہیں ۔
ساغر مئے-توحید کا گو پی چکے ہم ہیں ۔
لیکن دل-اے-مسلم میں بھی موجود صنم ہیں ۔
ہے شرکے-خفیے شرکے-جلیے عامَ نہیں ہے ۔
تاہم جو ہے اسلام وہ اسلام نہیں ہے ۔

(توحید=اک ربّ، ساغر=پیالہ، صنم=
بتّ، شرکے=ربّ دا شریک مننا، خفی=
گپت، جلی=پرگٹ)

72

اٹھ ساکییا، اٹھ ساغر-اے-توحید پلا دے ۔
انجام-اے-دھرم-او-دین کی تمہید پلا دے ۔
اے میرے سخی(سخن)، اے مرے جمشید ! پلا دے ۔
ہو جائے فقیروں کی بھی آج عید پلا دے ۔
تا مذہب-اے-اشاک سے سر لے کے ن جائیں ۔
مانند-اے-براہیم پسر لے کے ن جائیں ۔

(انجام=نتیجہ، تمہید=بھومکا، جمشید=
اک رنگیلا بادشاہ، مذہب-اے-اشاک=
عاشقاں دی قتل گاہ، پسر=پتر)

73

اک خواب سا دنییا کا وجود اور عدم ہے ۔
ہے دل میں مرے جس کا یہ سب جاہ-او-ہشم ہے ۔
انجامے-دو-آلمامے مرے آغاز سے کم ہے ۔
آزاد ہوں بے فکر ہوں شادی ہے ن غم ہے ۔
سیر اتنا ہوں ہر بیش مجھے کم نظر آیا ۔
اک بوند سے بڑھ کر ن مجھے یم نظر آیا ۔

(وجود اور عدم=ہوند اتے انہوند، جاہ-
او-ہشم=رتبہ، آغاز=شروع، سیر=رجیا،
بیش=ودھیرا، یم=دریا)

74

اوندھائے ہوئے مست پیالا کو ہیں کب سے ۔
بات ہو نہیں سکتی ہے نکاہت کے سبب سے ۔
اب تک ن کہا ہم نے تکلف سے ادب سے ۔
بےحال ہیں میکش ترے بادا کی طلب سے ۔
شیشے میں ڈبو دے ہمیں ساغر میں ڈبو دے ۔
سنتوکھ کے تالاب میں، کوسر میں ڈبو دے ۔

(اوندھائے=الٹائے، مست= خالی، نکاہت=
کمزوری، میکش=شرابی، بادا کی طلب=
شراب دی اچھا، کوسر=اک سرگی ندی)

75

دے عشقَ کے، عرفاں کے، وحدت کے پیالے ۔
دس بیس پلا دے مئے-امرت کے پیالے ۔
الفت کے پیالے وہ محبت کے پیالے ۔
دنییا میں پلا کوسر-اے-جنت کے پیالے ۔
نشہ ہو پھر ایسا کہ دوئی دل سے جدا ہو ۔
جس چیز کو دیکھوں مجھے دیدار-اے-خدار ہو ۔

(عرفاں=گیان، وحدت=اک ربّ نوں مننا)

76

اے قطرہ-اے-ناچیز میں جاں ڈالنے والے ۔
اے رحم کے سانچے میں حسیں ڈھالنے والے ۔
اے رنگ رنگیلے ! اے ہمیں پالنے والے ۔
آفات کو اے بن کے سپر ٹالنے والے ۔
نہ-اہل ہوں داتا ! مجھے اہل بنا دے !
مشکل جسے سمجھوں تو اسے سہل بنا دے !

(حسیں=سندر، سپر=ڈھال)

77

ہاں ملک-اے-سخن کی مجھے جاگیر عطا کر ۔
لفظوں کو مرے برش-اے-شمشیر عطا کر ۔
بیمسل مجھے قوت-اے-تحریر عطا کر ۔
تو آپ مئسر ہے وہ تاثیر عطا کر ۔
مشکل تو نہیں، گر مرے مولٰی کا کرم ہو ۔
نایاب سی شے گنج-اے-شہیداں یہ رقم ہو ۔

(بیمسل=بے مثال، قوت-اے-تحریر=لکھن
دی شکتی، مئسر=اثر پاؤن والا، رقم=
لکھنا)

78

گوبند کے دلدار قلعے سے نکل آئے ۔
وہ دیکھیئے سرکار قلعے سے نکل آئے ۔
گھوڑے پے ہو اسوار قلعے سے نکل آئے ۔
لے ہاتھ میں تلوار قلعے سے نکل آئے ۔
کیا وصف ہو اس تیغ کا اس تیغے-زباں سے ۔
وہ میان سے نکلی نہیں نکلی یہ دہاں سے ۔

(وصف=صفت، دہاں=منہ)

79

کس منہ سے کروں تیغ-اے-خمدار کی تعریف ۔
گوبند کی بخشی ہوئی تلوار کی تعریف ۔
پرکالا-اے-آتشلا کی شرربار کی تعریف ۔
بانکی کی، نکیلی کی، ترہدار کی تعریف ۔
تھی دوش پِ شمشیر یا کاندھے پِ پری تھی ۔
تھی تشنہ-اے-خونا اس لیئے غصے میں بھری تھی ۔

(خمدار=ٹیڈھی، پرکالا-اے-آتشلا=اگّ
دی لاٹ، شرربار=چنگیاڑے برساؤ،
ترہدار=خاص گھڑت والی، دوش=موڈھا،
تشنہ-اے-خونا=خون دی پیاسی)

80

از-دیدا-اے-جوہر اسے دیکھا، اسے دیکھا ۔
کچھ دیر برابر اسے دیکھا، اسے دیکھا ۔
پہلو کو بدل کر اسے دیکھا، اسے دیکھا ۔
صدقے ہوئے سر پر اسے دیکھا، اسے دیکھا ۔
اب کیا تھا گری، برق-اے-بلا بن کے گری وہ ۔
منہ پھر گئے لاکھوں ہی کے جس سمت پھری وہ ۔

(از-دیدا-اے-جوہر=پارکھی اکھ نال، برق=
بجلی)

81

کہتے تھے ادو برق ہے تلوار نہیں ہے ۔
اس کاٹ کا دیکھا کبھی ہتھیار نہیں ہے ۔
نو-مشق جواں یہ کوئی زنہار نہیں ہے ۔
ستگور ہیں یہ فرزند-اے-وفادار نہیں ہے ۔
للکارے اجیت اور مخاطب ہوئے سب سے ۔
فرمائے ادو سے ن نکل حد-اے-ادب سے ۔

(نو-مشق=نواں ابھیاسی، فرزند=پتر)

82

ستگور گورو گوبند کے ہمسر نہیں ہم ہیں ۔
ان کے تو کف-اے-پا کے برابر نہیں ہم ہیں ۔
خادم ہیں ہر اک سنگھ کے افسر نہیں ہم ہیں ۔
جو تم ہو سمجھتے وہ مقرر نہیں ہم ہیں ۔
فرزند ہیں دلبند ہیں، ہمسر تو نہیں ہیں ۔
ہم کلغیؤں والے کے برابر تو نہیں ہیں ۔

(خادم=سیوک، مقرر=وار وار، کف=
ہتھیلی)

83

اس ہاتھ میں تھے بازو-اے-گوبند کے کسبل ۔
فرزند کی تلوار سے تھررا گئے جل تھل ۔
زندوں کا تو کیا ذکر ہے مردے ہوئے بیقل ۔
شمشان میں تھا شور مزاروں میں تھی ہل چل ۔
جمنا کے بھی پانی میں تلاتم سا بپا تھا ۔
گنگا کے بھی زرروں میں عجب جوش بھرا تھا ۔

(کسبل=مضبوط پکڑ، بیقل=بے چین،
تلاتم=چھلاں)

84

دیو لوک کے سب دیوتے فردوس سے جھانکے ۔
رستم سے جواں، بھیم سے یل، نل سے بانکے ۔
ہیراں تھے ہنر سے، پسر-اے-پیر-اے-زماں کے ۔
آکاش کی مخلوق کو خطرے ہوئے جاں کے ۔
تلوار وہ خونخار تھی، طوبیٰ ہی بھلی تھی ۔
لاکھوں کی ہی جاں لے کے بلا سر سے ٹلی تھی ۔

(فردوس=بہشت، یل=ویر)

85

پلٹن پ گری کاٹ دییا پل میں رسالہ ۔
سر اس کا اچھالا، کبھی دھڈ اس کا اچھالا ۔
لاشوں سے وہ جا پٹ گئی سایہ جہاں ڈالا ۔
تھا کھینچ لییا ڈر سے مہ-او-مہر نے ہالہ ۔
توندل فلک-اے-پیر کھڈا ہانپ رہا تھا ۔
مریخ کو لرزا تھا، زہل کانپ رہا تھا ۔

(مہ-او-مہر=چن سورج، فلک-اے-پیر=
بڈھا آکاش، مریخ=منگل، زہل=شنی)

86

دہشت سے سبھی برج ستاروں میں گھسے تھے ۔
اقرب اسد-او-سور ہساروں میں گھسے تھے ۔
یہ ہوش تھے گمّ ایدہے غاروں میں گھسے تھے ۔
شیروں میں ہرن شیر چکاروں میں گھسے تھے ۔
یہ اس کو دکھا اور ن وہ اس کو نظر آیا ۔
چھپنے کے لیئے بھیڑییا بھیڑوں میں در آیا ۔

(اقرب=برشچک، اسد=سنگھ راشی، سور=
برکھ راشی، ہسار=قلعے، ایدہے=سرال)

87

یہ آئی وہ پہنچی وہ گئی، سن سے نکل کر ۔
جب بیٹھ گئی سر پِ اٹھی تن سے نکل کر ۔
دو کر گئی چار آئی ن جوشن سے نکل کر ۔
تراری میں تیزی میں تھی ناگن سے نکل کر ۔
دشمن کو لییا مرکب-اے-دشمن بھی ن چھوڑا ۔
اسوار کو دو کر گئی توسن بھی ن چھوڑا ۔

(جوشن=زرہ، کوچ، مرکب=سواری، توسن=
گھوڑا)

88

تلوار سی تلوار تھی کیا جانیئے کیا تھی ۔
خونخار تھی خومبار تھی آفت تھی بلا تھی ۔
تھی آب یا فولاد پِ بجلی کی ضلع تھی ۔
یمراج کی اماں تھی وہ شمشیر-اے-کزایر تھی ۔
اردل میں بچارے ملکل-موتل کھڑے تھے ۔
اپنے شگل-اے-خاص میں مشغول بڑے تھے ۔

(ضلع=چمک، قضاع=موت، ملکل-موتل=
کال پرکھ، مشغول=رجھے ہوئے)

89

گھوڑا وہ سبک-سیر بدل جس کا نہیں تھا ۔
دیکھا تو کہاں تھا ابھی دیکھا تو کہیں تھا ۔
مہپھوز کوئی اس سے، مکاں تھا ن مکیں تھا ۔
بالا-اے-فلکا تھا وہ کبھی زیر-اے-زمیں تھا ۔
تھی ٹاپ کی آواز یا سیلی-اے-سبای تھی ۔
غنچے کے چٹخنے کی سدا اس سے سوا تھی ۔

(سبک-سیر=تیز چال، مکیں=واسی، بالا-
اے-فلک=آکاش اتے، زیر=ہیٹھ، سیلی-اے-
صبا=صبح ہوا دا رمکنا، غنچے=کلی،
سدا= آواز، سوا=ودھ)

90

اس کو کچل آیا کبھی اس کو کچل آیا ۔
صدہا کی لکدکوبی سے ہییت بدل آیا ۔
ٹھوکر جہاں ماری، وہاں پانی نکل آیا ۔
شیر آ گیا گر سامنے بولا، "سمبھل آیا" ۔
تیزی میں ہوا کو بھی تھا وہ قان کترتا ۔
تھا صم سے کبھی پھول، کبھی پان کترتا ۔

(صدہا=سینکڑے، لکدکوبی=لتاڑن، ہییت=
حلیہ)

91

کہتے تھے سبھی اسپ نہیں، ہے یہ چھلاوا ۔
طاقت بھی بلا کی ہے، نزاکت کے علاوہ ۔
کرتے تھے نظر-باز، اسے دیکھ کے دعویٰ ۔
ایسا ن قدم ہی ہے، کسی کا ن کاوا ۔
پٹھا ہے الگّ، اس کی کنوتی ہی جدا ہے ۔
سیماب لہو کی جگہ رگ رگ میں بھرا ہے ۔

(اسپ=گھوڑا، کاوا=ٹاپ، سیماب=پارا)

92

تاؤس سی دم، چاند سے صم، مار کی صورتَ ۔
بیپر ہے مگر اڑتا ہے، پردار کی صورتَ ۔
کس شیر کی، بل فیل کا رہوار کی صورتَ ۔
پھرتا ہے اشارے سے ہی پرکار کی صورتَ ۔
جس سمت گیا رن کا یہ نقشہ بدل آیا ۔
پلٹن پلٹ آیا، یہ رسالہ کچل آیا ۔

(تاؤس=مور، مار=سپّ، کس=پکڑ، فیل=ہاتھی،
رہوار=تیز گھوڑا)

93

پکڑے جسے گردن سے یہ پورا اسے کر دے ۔
ہو کامل-اے-فنمل بھی تو ادھورا اسے کر دے ۔
پیروں میں تفنگ آئے تو بورا اسے کر دے ۔
جس توپ پِ دے ٹاپ یہ چورا اسے کر دے ۔
جی میں قدر-انداز ڈرے، اوپچی گھاگے ۔
توپوں کو غرض چھوڑ کے سبھی توپچی بھاگے ۔

(تفنگ=بندوق، قدر-انداز=پکے تیر-
انداز، اوپچی=ہتھیاربند یودھے)

94

شہزادا-اے-زی-شاہادا نے بھاگڑ سی مچا دی ۔
یہ فوج بھگا دی، کبھی وہ فوج بھگا دی ۔
بڑھ-چڑھ کے توقع سے شجاعت جو دکھا دی ۔
ستگور نے وہیں قلعے سے بچے کو ندا دی ۔
شاباش پسر خوب دلیری سے لڑے ہو ۔
ہاں، کیوں ن ہو، گوبند کے فرزند بڑے ہو ۔

(شہزادا-اے-زی-شاہادا=اچی شان والا
شاہزادہ، شجاعت=ویرتا، ندا=آواز،
پسر=پتر)

95

دلبند نے تلوار سے تسلیم بجائی ۔
گردن پئے-آداب دلبر نے جھکائی ۔
اس وقفہ میں فوج-اے-ستم-آرا امنڈ آئی ۔
برچھی کسی بدبخت نے پیچھے سے لگائی ۔
تیورا کے گرے زین سے سرکار زمیں پر ۔
روح کھلد گئی اور تن-اے-زار زمیں پر ۔

(ستم-آرا=ظالم، تیورا کے=بھوانٹنی
کھا کے، کھلد=سورگ، تن-اے-زار=مردہ شریر)

96

بیٹے کو شہادت ملی دیکھا جو پدر نے ۔
توفاں بپا غم سے کییا دیدا-اے-تردا نے ۔
اس وقت کہا ننھے سے معصوم پسر نے ۔
رخصت ہمیں دلواؤ پتا جائینگے مرنے ۔
بھائی سے بچھڑ کر ہمیں جینا نہیں آتا ۔
سونا نہیں، خانا نہیں، پینا نہیں بھاتا ۔

(پدر=پتا، پسر=پتر)

97

تھی دوسرے بیٹے کی سنی بینتی جس دم ۔
سر کو، دہن-اے-پاک کو بوسے دییے پیہم ۔
مرنے کے لیئے کہنے لگے جائیے جم جم ۔
روٹھو ن خدا-رادا ! نہیں روکینگے کبھی ہم ۔
ہم نے تھا کہا باپ کو جاں دیجے دھرم پر ۔
لو کہتے ہیں اب آپ کو جاں دیجے دھرم پر ۔

(دہن-اے-پاک=پوتر منہ، بوسے=چمن،
پیہم=لگاتار)

98

مرنے سے کسی یار کو ہم نے نہیں روکا ۔
فرزند-اے-وفادار کو ہم نے نہیں روکا ۔
خشنودی-اے-کرتاری کو ہم نے نہیں روکا ۔
اب دیکھیئے سرکار کو ہم نے نہیں روکا ۔
تم کو بھی اسی راہ میں قربان کرینگے ۔
صد شکر ہے ہم بھی کبھی خنجر سے مرینگے ۔

(خوش نودی=رضا،خوشی)

99

قربان پدر کو کوئی انکار نہیں ہے ۔
سن کھیل کا ہے، رن کا سزاوار نہیں ہے ۔
آئی ہی چلانی تمھیں تلوار نہیں ہے ۔
یہ گل سا بدن قابیل-اے-سوفار نہیں ہے ۔
شاہزادہ-اے-ججھاردا نے فوراً کہا ابا ۔
میں بھائییوں سے کیوں رہوں گھٹ کر بھلا ابا ۔

(سن=عمر، سوفار=تیر دی نوک)

100

زندہ چنا جانا بھی تو آسان نہیں ہے !
سرہند میں دی بھائییوں نے کیا جان نہیں ہے ۔
کیوں مجھ کو دھرم-یدھ کا کچھ دھیان نہیں ہے ۔
بندے کو چھری خانے کا ارمان نہیں ہے ۔
لڑنا نہیں آتا مجھے مرنا تو ہے آتا ۔
خود بڑھ کے گلا تیغ پِ دھرنا تو ہے آتا ۔

101

روکے سے کبھی شیر کا بچہ بھی رکا ہے ۔
جھوٹھے تو رکے کیا کوئی سچا بھی رکا ہے ۔
پتجھڑ میں ثمر شاخ پِ کچا بھی رکا ہے ۔
سر دینے سے ربّ کو کوئی اچھا بھی رکا ہے ۔
نیکی ہے یہ ایسی، کہ جواب ہو نہیں سکتا ۔
پاپی پِ بھی دوزخ کا عذابِ ہو نہیں سکتا ۔

(ثمر=پھل، دوزخ=نرک، عذابِ=دکھ)

102

کس شخص نے ہونا یہاں تاراج نہیں ہے ۔
کیا دم کا بھروسہ کہ تھا کلھ آج نہیں ہے ۔
بڑھ چڑھ کے دھرم-یدھ سے معراج نہیں ہے ۔
مرگ-اے-شہدا وصف کی محتاج نہیں ہے ۔
سنگھوں کے لیئے موت یہ رحمت کا سبب ہے ۔
ربّ ہو گیا جن بھگتوں کا ان کے لیئے سب ہے ۔

(تاراج=نعش، معراج=پدوی،پؤڑی،
مرگ-اے-شہدا=شہیداں دی موت، وصف=
تعریف)

103

بھگوان ہو خوش جن سے، ہے خشکی تری ان کی ۔
رہتی ہے ہر اک فصل میں، کھیتی ہری ان کی ۔
کرتار سدا رکھتے ہیں جھولی بھری ان کی ۔
فردوس بھی ان کا اندر-پوری ان کی ۔
مر جانا دھرم پر بہت آسان ہے ہم کو !
ستگور کے پسر ہیں، یہی شایان ہے ہم کو !!

(خشکی تری=تھل جل، شایان=اچت)

104

بھرائی سی آواز سے بولے گورو گوبند ۔
پالا ہے تمھیں ناز سے بولے گورو گوبند ۔
روکا نہیں آغاز سے بولے گورو گوبند ۔
اس ننھے سے جاں-باز سے بولے گورو گوبند ۔
لو آؤ تن-اے-پاک پِ ہتھیار سجا دیں ۔
چھوٹی سی کماں ننھی سی تلوار سجا دیں ۔

105

ہم دیتے ہیں خنجر اسے تیر سمجھنا ۔
نیزے کی جگہ دادا کا تم تیر سمجھنا ۔
جتنے مریں اس سے انھیں بے-پیر سمجھنا ۔
زخم آئے تو ہونا نہیں دلگیر سمجھنا ۔
جب تیر کلیجے میں لگے سی نہیں کرنا ۔
اف منہ سے میری جان کبھی بھی نہیں کرنا ۔

106

لو جاؤ، سدھارو ! تمھیں اﷲ کو سونپا !
مر جاؤ یا مارو تمھیں اﷲ کو سونپا !
ربّ کو ن بسارو تمھیں اﷲ کو سونپا !
سکھی کو ابھارو تمھیں اﷲ کو سونپا !
واہگرو اب جنگ کی ہمت تمھیں بخشے !
پیاسے ہو بہت جام-اے-شہادت تمھیں بخشے !

107

بیٹا، ہو تم ہی پنتھ کے بیڑے کے خویا ۔
سر بھینٹ کرو تاکِ دھرم کی چلے نیا ۔
لے دے کے تمھیں تھے مرے گلشن کے بکیا ۔
لو جاؤ، راہ تکتے ہیں سب خلد میں بھیا ۔
خواہش ہے تمھیں تیغ چلاتے ہوئے دیکھیں !
ہم آنکھ سے برچھی تمھیں کھاتے ہوئے دیکھیں !!

108

دادا سے ملو سئرگ میں جس دم تو یہ کہنا ۔
دو چار ہوں گر خلد میں آدم تو یہ کہنا ۔
جب بھیس میں نانک کے ملیں ہم تو یہ کہنا ۔
پائیں کہیں گوبند کا مہرم تو یہ کہنا ۔
آزاد کرایا بنی-آدم کے گلے کو ۔
کٹوا دیئے بچے بھی مریدوں کے بھلے کو ۔

(مہرم=جانکار، بنی-آدم=بابا آدم
دی اولاد)

109

جب فتہ گجا کر گئے ججھار تھے رن میں ۔
ہر شیر، بگھیلا نظر آنے لگا بن میں ۔
ننھی سی قضاع بولی میں آئی ہوں شرن میں ۔
دلواؤ اماں گوشہ-اے-دامان-اے-کفنان میں ۔
میں جس کے ہوں قبضے میں وہ قابو میں ہے تیرے !
گریائی کا بل ننھے سے بازو میں ہے تیرے ۔

(اماں=شرن، گوشہ-اے-دامان-اے-کفنان=
کفن دے پلیاں دی کنیں)

110

دس بیس کو زخمی کییا دس بیس کو مارا ۔
اک حملے میں اس ایک نے اکیس کو مارا ۔
خناس کو مارا کبھی ابلیس کو مارا ۔
غل مچ گیا اک طفل نے چالیس کو مارا ۔
بچ بچ کے لڑو کلغیؤں والے کے پسر سے ۔
یہ نیمچہ لائے ہیں گورو جی کی قمر سے ۔

(خناس اتے ابلیس=شیطان دے ناں، طفل=
بچہ، نیمچہ=چھوٹا کھنڈا)

111

شہزادے کے حربے سے شجاع-او-جریاء ہارے ۔
جی-داروں کے جی چھوٹ گئے، سب کوی ہارے ۔
معصوم سے وہ بازی سبھی لشکری ہارے ۔
کمزور سے نربل سے، ہزاروں بلی ہارے ۔
میداں میں جب بھائی کا لاشا نظر آیا ۔
گھوڑے سے وہ معصوم دلاور اتر آیا ۔

(حربے=ہتھیار، شجاع-او-جریاء=بہادر
تے دلاور)

112

سر گود میں لے کر کے کہا بھائی سے بولو ۔
اس خواب-اے-گراں سے کہیں ہشیار تو ہو لو ۔
ہم کون ہیں دیکھو تو ذرا آنکھ تو کھولہو ۔
سونے کی ہی ٹھانی ہے اگر مل کے تو سو لو ۔
بھائی تمھیں جب گنج-اے-شہیداں کی زمیں ہے ۔
ٹھانی ہوئی ہم نے بھی بسیرے کی یہیں ہے ۔

113

اتنے میں خدنگ آ کے لگا ہائے جگر میں ۔
تھا تیر کلیجے میں یا کانٹا گل-اے-تر میں ۔
تاریک زمانہ ہوا ستگور کی نظر میں ۔
طوفان اٹھا خاک اڑی بہر میں بر میں ۔
تیورا کے گرا لخت-اے-جگر، لخت-اے-جگر پر ۔
کیا گزری ہے اس وقت کہوں کیا میں پدر پر ۔

(خدنگ=تیر، تاریک=ہنیرا، بہر=سمندر،
بر=دھرتی، لخت=ٹکڑا)

114

تھے چاہتے پیوند کریں خاک کا سب کو ۔
ہاتف نے کہا کام میں لانا ن غضب کو ۔
لڑنا نہیں منظور ہے آج آپ کا ربّ کو ۔
یہ سن کے گورو بھول گئے رنج-او-تئب کو ۔
قبضے سے مئن تیغ کے پھر ہاتھ اٹھایا ۔
ستگور نے وہیں سجدہ-اے-شکرانہ بجایا ۔

(پیوند=ملاؤنا، ہاتف=آکاش بانی کرن
والا فرشتہ، رنج-او-تئب=دکھ، مئن=
ترنت)

115

یعقوب کو یوسف کے بچھڑنے نے رلایا ۔
صابر کوئی کم ایسا رسولوں میں ہے آیا ۔
کٹوا کے پسر چارے اک آنسو ن گرایا ۔
رتبہ گورو گوبند نے رشییوں کا بڑھایا ۔
ڈنڈک میں پھرے رام تو سیتا تھی بغل میں ۔
وہ فخر-اے-جہاں ہند کی ماتا تھی بغل میں ۔

(صابر=صبر کرن والا، رسول=اوتار)

116

لچھمن سا برادر پئے-تسکین-اے-جگرن تھا ۔
سیتا سی پتیبرت سے بن رام کو گھر تھا ۔
باقی ہیں کنھیا تو نہیں ان کا پسر تھا ۔
سچ ہے گورو گوبند کا رتبہ ہی دگر تھا ۔
کٹوا دییے شش شام نے گیتا کو سنا کر ۔
روح پھونک دی گوبند نے اولاد کٹا کر ۔

(برادر=بھائی، تسکین=چین، دگر=
ہور ہی، انوکھا)

117

بے چین ہیں اب خالصہ جی رنج کے مارے ۔
دل پر غم-او-اندوہ کے چلنے لگے آرے ۔
خاموش تڑپنے لگے ستگور کے پیارے ۔
جوگی جی کہو پنتھ سے اب فتہ گزارے ۔
چھایا ہوا دیوان پے اب غم کا سماں ہے ۔
بس ختم شہیدوں کی شہادت کا بیاں ہے ۔

بسّ ایک ہند میں تیرتھ ہے یاترا کے لییے ۔
کٹائے باپ نے بچے جہاں خدا کے لییے ۔

چمک ہے مہر کی چمکور تیرے زروں میں،
یہیں سے بن کے ستارے گئے سما کے لییے ۔

گورو گوبند کے لخت-اے-جگر اجیت ججھار،
فلک پِ اک، یہاں دو چاند ہیں زیا کے لییے ۔

دکن میں دور مرکد ہے حضور صاحب کا،
پہنچنا جس جگہ مشکل ہے مے-نوا کے لییے ۔

بھٹکتے پھرتے ہیں کیوں حج کریں یہاں آ کر،
یہ کعبہ پاس ہے ہر ایک خالصہ کے لییے ۔

یہاں وہ لیٹے ہیں، ستلج نے جوش میں آ کر،
چرن حضور کے نہریں بہا بہا کے لییے ۔

مزار گنج-اے-شہیداں ہے ان شہیدوں کا،
فرشتے جن کی ترستے تھے خاک-اے-پاک کے لییے ۔

اٹھائیں آنکھوں سے آکر یہاں کی مٹی کو،
جو خاک چھانتے پھرتے ہیں کیمییا کے لییے ۔

یہ ہے وہ جا جہاں چالیس تن شہید ہوئے،
خطاب سروری سنگھوں نے سر کٹا کے لییے ۔

دلائی پنتھ کو سر-بازیؤں نے سرداری،
برائ قوم یہ رتبے لہو بہا کے لییے ۔

(مہر=سورج، سما=اکاش، زیا=روشنی،
مرکد=سمادھی، مے-نوا=ننگ ملنگ، مزار=
سمادھی، کیمییا=رسائن، سروری=سرداری،
سر-بازیؤں=قربانیاں)