Punjabi Kavita
Allah Yar Khan Jogi

Punjabi Kavita
  

Shaheedan-e-Wafa Allah Yar Khan Jogi

1

جس دم انندپور میں ستگور مقیم تھے ۔
ہمگاہ گھر کے لوگ تھے اور کچھ ندیم تھے ۔
چاروں طرف سے قلعے کو گھیرے غنیم تھے ۔
ٹوٹے سے رزق کے دل-اے-سنگھاں دو-نیم تھے ۔
پیاسے تھے اور بھوکھ کی شدت کمال تھی ۔
تھی مختصر سی فوج سو وہ بھی نڈھال تھی ۔

(ندیم=ساتھی، غنیم=دشمن، دو-نیم=
دو ٹوٹے)

2

آدا کی فوج کے ن شمار-او-حساب تھے ۔
سردار-اے-فوجار ایک نہیں دو نواب تھے ۔
راجے کئی پہاڑ کے بھی ہمرکاب تھے ۔
سنگھوں سے بسط-چندت یہ سب شیخ-او-شعب تھے ۔
سکھوں کی آرزو تھی کہ لڑ کر شہید ہوں ۔
ستگور یہ سوچتے تھے ن ضائع مرید ہوں ۔

(بسط-چندت=ویہہ گنا، شیخ-او-شعب=
بڈھے اتے جوان)

3

بولے کہ اپنی فوج نہایت ہے مختصر ۔
گھیرے ہوئے ہیں ہم کو ہزاروں ہی اہل-اے-شرل ۔
چھوڑینگے اپنے آپ کو دشمن کے رہم پر ۔
اس میں بھی اپنی عزت-او-عظمت کا ہے خطر ۔
چڑییوں کو آج بھی میں لڑا دونگا باز سے ۔
کچھ فایدا نہیں ہے مگر ترک-او-تاژ سے ۔

(شر=شرارتی، عظمت=وڈیائی)

4

دنییا کے لوگ ہوتے ہیں پاگل جنون سے ۔
ہم مسلہے-جہانے ہیں، غرض ہم کو دون سے ۔
کیا فایدا ہے ہندو-او-مسلم کے خون سے ۔
بہتر ہے اجتناب ہی کار-اے-زبون سے ۔
اتنے میں اتلاء ہئی، قاصد اک آیا ہے ۔
سرہند کے نواب کا پیغام لایا ہے ۔

(مسلہے-جہانے=سنسار-سدھارک، دون=نیچ
اجتناب=بچنا، کار-اے-زبون=نیچ کم)

5

فرمائے ستگرو، اسے لاؤ ہمارے پاس ۔
یہ پا کے حکم ترت گیا اٹھ کے ایک داس ۔
لایا سفیر جس پِ تھا چھایا ہوا ہراس ۔
دیوان کھالسوں کا جو دیکھا گیا حواس ۔
ستگور نے دے کے حوصلہ پوچھا یہ پیار سے ۔
پیغام کیا تو لایا ہے فوج-اے-شرار سے ۔

(سفیر=ایلچی،راجدوت، ہراس=ڈر)

6

کہنے لگا ہزور کا رتبہ بلند ہو ۔
نانک کی شان دسویں گورو میں دچند ہو ۔
ہادی ہو اک زمانے کے تم دردمند ہو ۔
کیجے معاف بات اگر ن پسند ہو ۔
بھیجا ہے مجھ کو ناظم-اے-سرہند نے یہاں ۔
فرمان-اے-شاہ-اے-دلی کے پابند نے یہاں ۔

(دچند=دگنی، ہادی=متّ دین والا)

7

اس نے کہا کہ ہم کو نہیں بیر آپ سے ۔
رکھتے نہیں ہیں کد حرم-او-دیر آپ سے ۔
پاتے ہیں سب بشر سبق خیر آپ سے ۔
اپنے بوجہِ تمء ہوئے غیر آپ سے ۔
دین-او-دھرم چھوڑ کے اندھے ہوئے ہیں کچھ ۔
نازل پہاڑ پر سے درندے ہوئے ہیں کچھ ۔

(کد=دشمنی، حرم-او-دیر=مندر
مسجد، بشر=منکھ، تمء=لوبھ،
نازل=ابھرنا، درندے=خونخار جانور)

8

چھوڑو انندپور یہ شاہی مقام ہے ۔
مخدوس اس جگہ پِ تمھارا کیام ہے ۔
فوجوں سے اور کلؤں سے کیا تم کو کام ہے ۔
لڑنا ہی جب نہیں تو یہ کیوں دھوم دھام ہے ۔
ہے خیر اسی میں اپنے کہے پر عمل کرو ۔
بیسود ہمدموں کو ن نظر-اے-اجل کرو ۔

(مخدوس=خطرے والا، بیسود=بے فائدہ،
ہمدم=ساتھی، نظر-اے-اجل=موت دی
بھیٹا)

9

دنییا کے ہم تو، دین کے تم پاتشاہ ہو ۔
آتا نہیں یقیں تمھیں دنییا کی چاہ ہو ۔
ستگور کے پاس کس لییے فوج-او-سپاہ ہو ۔
نانک کے جانشین کو کیوں حب-اے-جاہب ہو ۔
سنگھوں کو ساتھ لے کے یہاں سے سدھاریئے ۔
واہگورو کی فتہ کا نعرہ پکاریئے ۔

(حب-اے-جاہب=رتبے دا پیار)

10

پیغام سن کے ستگورو خاموش ہو گئے ۔
پیدا تبیئتوں میں مگر جوش ہو گئے ۔
در-پئے نکالنے کے ستم-کوش ہو گئے ۔
جاتے ہیں ہم تو بولینگے روپوش ہو گئے ۔
للکارے فوج سے کہ قلعے سے نکل چلو ۔
دشمن سے ہوشیار رہو اور سمبھل چلو ۔

(ستم-کوش=ظالم، روپوش=لکنا)

11

بیوجہ ہم تو خود نہیں چاہتے کہ جنگ ہو ۔
اس سے لڑینگے، لڑنے کی جس کو امنگ ہو ۔
ٹھوکر سے پھینک دینگے جو رستے میں سنگ ہو ۔
سر اس کا کاٹ لینگے، کہا جس نے تنگ ہو ۔
خونریزی ورنہ خلق کی کب ہم کو بھاتی ہے ۔
شیروں کی فوج کہ دے تو قاصد کہ جاتی ہے ۔

12

مشہور ہے کہ پائے گدا لنگ بھی نہیں ۔
اپنے لییے خدا کی زمیں تنگ بھی نہیں ۔
لوگوں سے ہم کو آرزو-اے-جنگو بھی نہیں ۔
ورنہ کوئی دلیری میں پاسنگ بھی نہیں ۔
مجبور ہو گئے تو لڑائی دکھائینگے ۔
پھر تیغ-اے-خالصہ کی صفائی دکھائینگے ۔

(گدا=فقیری، لنگ=لنگڑا، پاسنگ=پاسکو)

13

دیکھا ادو نے قلعہ ملیگا ن زور سے ۔
بپھرینگے شیر اور شگالوں کے شور سے ۔
بینکا نہ بال ہوگا سلیماں کا مور سے ۔
واقف تھے ستگورو دل-اے-آدا کے چور سے ۔
مل کر دعا کرینگے یہ وئدے کے رنگ میں ۔
سمجھینگے ہم بھی کیا ہوا میدان-اے-جنگان میں ۔

(شگالوں=گدڑ، مور=کیڑی)

14

تاروں کی چھاؤں قلعے سے ستگورو رواں ہوئے ۔
کس کے قمر سوار تھے سارے جواں ہوئے ۔
آگے لیئے نشاں کئی شیر-اے-ییاں ہوئے ۔
کچھ پیچھے جاں-نثار گورو درمیاں ہوئے ۔
چاروں پسر ہزور کے ہمرہ سوار تھے ۔
زوراور اور فتہ، اجیت اور ججھار تھے ۔

(شیر-اے-ییاں=غصے والے شیر، پسر=پتر)

15

ستگور کی مائیں ساتھ تھیں ستگور کی ماں کے ساتھ ۔
تھی ہمرکاب شیرنی شیر-اے-ییاں کے ساتھ ۔
غرزے کہ کوچ کر دییا کل خانداں کے ساتھ ۔
کیا باوفا مرید تھے پیر-اے-زماں کے ساتھ ۔
ستگور جہاں پِ اپنا پسینہ گراتے تھے ۔
سنگھ اس جگہ پِ اپنا لہو تک بہاتے تھے ۔

16

دیکھا فرس پِ جس گھڑی عالی-جناب کو ۔
پابوسیؤں کی پڑ گئی ہر شیخ-او-شعب کو ۔
قدموں کو چومتا تھا کوئی سکھ رکاب کو ۔
گھیرا ہوا ستاروں نے تھا ماہتاب کو ۔
جلوا جو تھا فلک پِ وحی تھا جہان پر ۔
پہنچی ہوئی تھی رن کی زمیں آسمان پر ۔

(فرس=گھوڑا، پابوسیؤں=پیر چمنا، شیخ=
بڈھا، شعب=جوان، ماہتاب=چن، فلک=
اسمان)

17

ہونے کو عنقریب سحر کا زہور تھا ۔
سب مٹ چکے تھے، صبح کے تارے پِ نور تھا ۔
پاتال کر چکا شہ-اے-مشرک عبور تھا ۔
تھوڑھا مقام افق سے خرشید دور تھا ۔
پھیکا فلک کا چاند تھا نانک کے چاند سے ۔
چہرے اڑے ہوئے تھے ستارے تھے ماند سے ۔

(زہور=پرگٹائ، شہ-اے-مشرک=پورب
دا بادشاہ، عبور=پار، افق=دمیل،
خرشید=سورج)

18

مشرک کی سمت اتنے میں پو پھوٹنے لگی ۔
مہتابی رخ پِ چاند کے پھر چھوٹنے لگی ۔
جوزا کے ساتھ کوس-اے-فلک ٹوٹنے لگی ۔
لطفَ-اے-نسیم خلق-اے-خدا لوٹنے لگی ۔
اترا ہوا عروس-اے-فلکس کا سنگھار تھا ۔
گم کہکشاں کے سینے سے نو-لکھا ہار تھا ۔

(سمت=طرف، جوزا=اسمان دا تیجا برج،
کوس-اے-فلک=اکاش دی کمان، لطفَ-اے-
نسیم=سویر دی ہوا دا انند، خلق=
لوک، عروس=وہوٹی، کہکشاں=اکاش-گنگا)

19

زہرا کی تانک جھانک تھی بند آسمان سے ۔
غائب تھا مشتری بھی فلک کی دوکان سے ۔
جھومر بھی اڑ چکا تھا ثریا کے قان سے ۔
بڑھنے لگی سحر کی سپیدی بھی شان سے ۔
لیکر کرن کا تاج تھا سورج نکلنے کو ۔
مشرک سے چشمہ نور کا تھا ابلنے کو ۔

(زہرا، مشتری=گرہیا جاں تاریاں دے
ناں، ثریا=اسمان دے چھ ملے ہوئے تارے،
جھمکا، سپیدی=چٹیائی، مشرک=پورب)

20

ستگور اب آن پہنچے تھے سرسا ندی کے پاس ۔
تھے چاہتے بجھائیں بارہ پہر کی پیاس ۔
اشنان کرکے اور بدل کے نیا لباس ۔
واہگورو کا نام جپیں اور کریں سپاس ۔
جپجی کا جاپ اس گھڑی کرنا زرور تھا ۔
پڑھ کے گرنتھ اور بڑھانا سرور تھا ۔

(سپاس=شکر)

21

تھا سر پِ وقت آ گیا آسا کی وار کا ۔
سازوں کی زیر-او-بم کا، چڑھاؤ اتار کا ۔
منشا تھا کلغیدھر کے دل-اے-بے قرار کا ۔
موقع ملے تو کر لیں بھجن کردگار کا ۔
جب محو-اے-بندگی ہوئے نانک کے جانشین ۔
آ ٹوٹے خالصہ پِ اچانک کئی لئین ۔

(زیر-او-بم=اتار-چڑھاء، کردگار=
سرجنہار، محو=لین،لئین=لانھتی)

22

بدبختوں نے جو وئدا کییا تھا بسر گئے ۔
نامرد قول کرکے زباں سے مکر گئے ۔
گوبند سنگھ کے شیر بھی فوراً بپھر گئے ۔
تلواریں سوت سوت کے رن میں اتر گئے ۔
میداں کو ایک آن میں چورنگ کر دییا ۔
رستم بھی آیا سامنے تو دنگ کر دییا ۔

23

ستگور کے گرد سینیں کی دیوار کھینچ لی ۔
سو بار گر گئی تو سو بار کھینچ لی ۔
خنجر ادو کا دیکھ کے تلوار کھینچ لی ۔
زخمی ہوئے تو لذت-اے-سوفار کھینچ لی ۔
یاد-اے-اکال پرکھ میں گر بھی جمے رہے ۔
چرکے ہزار کھا کے اکالی تھمے رہے ۔

(ادو=ویری، سوفار=تیر دا منہ)

24

ہرچند ٹوٹ ٹوٹ کے گرتے رہے لئیں ۔
سنگھوں نے ایک انچ بھی چھوڑی نہیں زمیں ۔
لنگر کسی سے شیروں کا ملتا بھی ہے کہیں ۔
بے شک نہیں نہیں، کبھی ہاں ہاں، نہیں نہیں ۔
مشروف یاد-اے-ہکد میں گورو بے دریغ تھے ۔
کیوں موت سے لرزتے وہ فرزند-اے-تیغند تھے ۔

(لئیں=لانھتی، مشروف=لین، بے دریغ=
بنا سنکوچ، فرزند=پتر)

25

بیمسل-او-بے نظیر تو ستگور ہمارا ہے ۔
واہگورو کے بعد ترا ہی سہارا ہے ۔
ہو کاش سب کو تجھ کو خدا جتنا پیارا ہے ۔
تیغوں کے سایے میں کہاں داتا بسارا ہے ۔
توحید پر فدا تھا تو عالی-مقام تھا ۔
تیروں کے مینہہ میں یاد-اے-خدا تیرا کام تھا ۔

(بے نظیر=جس دا اداہرن نہ ہووے، توحید=
ادویت، فدا=قربان، عالی-مقام=اچی تھاں)

26

یاد-اے-اکال پرکھ کا سب کو سبق دییا ۔
خنجر کی دھار پر بھی ورق در ورق دییا ۔
کرکے عمل سکھایا جو مزموں ادک دییا ۔
پھر زالموں سے چھین کے سنگھوں کو ہک دییا ۔
رتبے سے معرفت کے ہم آج گر گئے ۔
صحبت سے بت-پرستوں کی تقدیر پھر گئے ۔

(ادک=اوکھا، معرفت=گیان)

27

فارغ عبادتوں سے غرض کہ ہوئے گورو ۔
پوچھا یہ شہزادوں سے کیوں غل ہے چار-سور ۔
فرمائے ہاتھ باندھ کے چاروں ہی نیک-خوک ۔
سب واکیا بیاں کییا ستگور کے روبرو ۔
سنتے ہی جس کو آپ کے طیور بدل گئے ۔
گدی سے اترے، تیغ اٹھائی، سمبھل گئے ۔

(چار-سور=چاروں پاسے،نیک-خوک=چنگے سبھاء والے)

28

اسلہ سجائے، کلغی لگائی، تبر لییا ۔
تیروں سے خوب ٹھونس کے ترکش کو بھر لییا ۔
گھوڑا منگا، رکاب میں جب پاؤں دھر لییا ۔
قابو اناں کو تھام کے اک دیوَ کر لییا ۔
سنگھوں میں جب رواں ہوا گر کا سمند تھا ۔
واہگورو کی فتہ کا نارا بلند تھا ۔

(تبر=کہاڑے ورگا ہتھیار، اناں=
واگ، سمند=گھوڑا)

29

ہاں ساکییا کدھر ہے، شراب-اے-کہن پلا ۔
کہتا ہے تجھ سے جوگی شیریں-سخنں پلا ۔
شے'روں کو شے'ری پلا، شمپیین پلا ۔
پاؤ آدھ پاؤ ہیچ ہے دو وار من پلا ۔
ستگور کی تاکِ رن میں لڑائی دکھا سکوں ۔
میں بھی رکاب تھام کے میداں میں جا سکوں ۔

(کہن=پرانی، شے'ری، شمپیین=شراب
دے ناں، ہیچ=تچھّ، من=میننوں)

30

وہ دیکھو رن میں تیغ بہادر کا لال ہے ۔
وہ دیکھو رن میں سرور-اے-فوج-اے-اکال ہے ۔
تلوار دست-اے-راست میں ہے، چپ میں ڈھال ہے ۔
سورج کے سر پِ بدر بھی ہے اور ہلال ہے ۔
شمشیر جب ہلائی تو بجلی چمک گئی ۔
دہشت سے ساری فوج ادو کی دبک گئی ۔

(سرور=سردار، دست-اے-راست=سجا ہتھ،
چپ=کھبا، بدر=پورا چن، ہلال=نواں چن)

31

ستگور کو دیکھ کر پڑ گئی دشمن میں کھلبلی ۔
ناظم کو ازتراب تھا، راجوں کو بیکلی ۔
کہتے تھے ان کی جب کبھی تلوار ہے چلی ۔
سر لے کے پھر ہزاروں کے ہی ہے بلا ٹلی ۔
جانوں کی خیر چاہتے ہو، مل کے گھیر لو ۔
قسمت چلی ہے ساتھ سے پھر اس کو پھیر لو ۔

(ازتراب=پریشانی، بیکلی=بے چینی)

32

سن کر یہ بات ٹوٹ پڑے اہل-اے-کینل ۔
حملہ کییا وہ سخت کہ تھرا گئی زمیں ۔
ہو جاتا زیر اس گھڑی رستم بھی بلیکیں ۔
نرغا میں آ کے ستگورو گھبرائے تک نہیں ۔
اک ڈھال پِ ہزاروں کے روکے ہزار وار ۔
تلوار جب اٹھائی تو بھاگے کتاروار ۔

(اہل-اے-کینل=ساڑے نال بھرے لوک،
بلیکیں=یقیناً، نرغا=جھانسا)

33

کہنے لگے گورو تو جیالے بلا کے ہیں ۔
سب داؤ گھات یاد انھیں فن-اے-دغا کے ہیں ۔
گدی پِ سلہ-کل ہیں تو رن میں لڑاکے ہیں ۔
بڑھ چڑھ کے بادشاہوں سے بندے خدا کے ہیں ۔
ہم تو سمجھ رہے تھے، پکڑ لینگے آن میں ۔
ثابت ہوئے یہ شیر مگر امتحان میں ۔

34

ستگورو نے راجپوتوں کے چھکے چھڑا دیئے ۔
مغلوں کے ولولے بھی جو تھے سب مٹا دیئے ۔
دشمن کو اپنی تیغ کے جوہر دکھا دیئے ۔
کشتوں کے ایک آن میں پشتے لگا دیئے ۔
راجا جو چڑھ کے آیے تھے باہر پہاڑ سے ۔
پچھتا رہے تھے جی میں گورو کی لتاڑ سے ۔

(کشتوں کے پشتے=لاشاں دے ڈھیر)

35

دیکھا جونہی ہزور نے دشمن سمٹ گئے ۔
بڑھنے کی جگہ خوف سے نامرد ہٹ گئے ۔
گھوڑے کو ایڑ دے کے گورو رن میں ڈٹ گئے ۔
فرمائے بزدلوں سے کہ تم کیوں پلٹ گئے ۔
اب آؤ رن میں جنگ کے ارماں نکال لو ۔
تم کر چکے ہو، وار ہمارا سنبھال لو ۔

36

آیے ہو تم پہاڑ سے میدان-اے-جنگان میں ۔
بٹا لگا کے جاتے ہو کیوں نام-او-ننگ میں ۔
سنتے ہیں تم کو ناز ہے تیر-او-تفنگ میں ۔
ہشیار شہسوار ہو ماہر خدنگ میں ۔
دس بارہ تم میں راجے ہیں دو اک نواب ہیں ۔
پھر ہم سے جنگ کرنے میں کیوں اجتناب ہیں ۔

(نام-او-ننگ=عزت، خدنگ=تیر،اجتناب=
پرہیز)

37

دیکھیں تو آج ہم بھی تمھاری بہادری ۔
وہ کھکری کی کاٹ پٹے کی ہنروری ۔
ہم نے تمھارے حملے کو روکا تھا سرسری ۔
اب اپنا وار روکنا سب مل کے لشکری ۔
ہم کو بفضل-اے-ایزدی تنہا ن جاننا ۔
کسرت پِ اینٹھ اینٹھ کے سینہ ن تاننا ۔

(بفضل-اے-ایزدی=ربّ دی مہر نال،
تنہا=اکلا)

38

یہ کہکے ان پے ٹوٹ پڑے دسویں پاتشاہ ۔
اس صف کو کاٹتے کبھی اس پرے کو کاہ ۔
جمتی ن تھی ہزور کی تلوار پر نگاہ ۔
تیغ-اے-گورو پِ ہوتا تھا بجلی کا شائباہ ۔
اک حملے میں تھا فوج کا تختہ الٹ گیا ۔
گر کی ہوا-اے-تیغ سے بادل تھا چھٹ گیا ۔

(صف، پرے=قطار، کاہ=گھاہ، شائباہ=شکّ)

39

جو بچ گئے وہ بھاگ گئے منہ کو موڑ کر ۔
رستہ گھروں کا لے لییا میداں کو چھوڑ کر ۔
سنگھوں نے بھس نکال دییا تھا جھنجھوڑ کر ۔
پچھتائے آخرش کو بہت قول توڑ کر ۔
لاشوں سے اور سروں سے تھا میدان پٹ گیا ۔
آدھے سے بیش لشکر-اے-آدار تھا کٹ گیا ۔

(بیش=ودھ، لشکر-اے-آدار=ویری دی فوج)

40

سرہند کے نواب کا فق رنگ ہو گیا ۔
لشکر کا حالَ دیکھ کے وہ دنگ ہو گیا ۔
ستگور کی تیغ-اے-تیز سے جب تنگ ہو گیا ۔
ظالم کا دل جو سخت تھا اب سنگ ہو گیا ۔
ٹھہرائی دل میں سنگھوں سے میں انتکام لوں ۔
دھوکے فریب سے میں سحر لوں یا شام لوں ۔

41

تاریخ میں لکھا ہے کہ در-جوش-اے-کارزار ۔
ستگور بڑھاتے ہی گئے آگے کو راہ وار ۔
ہم راہ رہ گئے تھے غرض چند جاں-نثار ۔
فرزندوں میں تھے ساتھ اجیت اور تھے ججھار ۔
زوراور اور فتہ جو دادی کے ساتھ تھے ۔
داییں کی جگہ چل دییے وہ باییں ہاتھ تھے ۔

(در-جوش-اے-کارزار=لڑائی دے جوش وچّ،
راہ وار=گھوڑا)

42

ہرچند کی تلاش ن پایا نشاں کہیں ۔
چھوڑا تھا جس جگہ پِ نہیں تھے وہاں کہیں ۔
پا جائیں فکر تھا نہ انھیں دشمناں کہیں ۔
ماتا کے ساتھ چل دییے شاہزادگاں کہیں ۔
لخت-اے-جگر ہزور کے جس دم بچھڑ گئے ۔
پاؤں وہیں وپھکھر-اے-محبت سے گڑ گئے ۔

(لخت-اے-جگر=جگر دے ٹوٹے، وپھکھر=
بہتات)

43

فوراً مراقبے میں گئے پیر-اے-خوش-خصال ۔
چودہ طبق کا کر لییا معلوم پل میں حالَ ۔
فرمائے جاں-نساروں سے کیوں ہوتے ہو نڈھال ۔
ماتا کے ساتھ چل دییے قربان ہونے لال ۔
بنیاد میں دھرم کی چنینگے ادو انھیں ۔
کرتار چاہتا ہے کرے سرخرو انھیں ۔

(مراقبے=متھا ٹیکنا، پیر-اے-خوش-
خصال=چنگے سبھاء والا گورو)

44

ہم نے بھی اس مقام پِ جانا ہے جلد تر ۔
جس جگہ تم کو اپنے کٹانے پڑینگے سر ۔
ہونگے شہید لڑکے یہ باقی کے دو پسر ۔
رہ جاؤنگا اکیلا میں کلھ تک لٹا کے گھر ۔
پہلے پتا کٹایا اب بیٹے کٹاؤنگا ۔
نانک کا باغ خون-اے-جگر سے کھلاؤنگا ۔

45

یہ کہکے پھر ہزور تو چمکور چل دیئے ۔
حالت پِ اپنی کچھ ن کییا غور چل دیئے ۔
کرتار کے دھیان میں فلفور چل دیئے ۔
راضی ہوئے رضا پِ بہر-طور چل دیئے ۔
جو کچھ وہاں پے گزری یہ لکھنا محال ہے ۔
یہ مرسییا سنانا تمھیں اگلے سال ہے ۔

(فلفور=فوراً، بہر-طور=پھر وی)

46

ہے زندگی تو اگلے برس لکھ کے لاؤنگا ۔
ارشد سے بڑھ کے مرسییا سب کو سناؤنگا ۔
ستگور کے غم میں روؤنگا تمکو رلاؤنگا ۔
دربار-اے-نانکی سے صلہ اس کا پاؤنگا ۔
زوراور اور فتہ کا اس دم بیاں سنو ۔
پہنچے بچھڑ کے ہائے کہاں سے کہاں سنو ۔

(ارشد=نیک آدمی، اتھے کوئی خاص
آدمی ہو سکدا ہے،صلہ=بدلہ)

47

بہر-اے-دوات خون-اے-شہیداں بہم کروں ۔
سینے کو اپنے چاک مثال-اے-کلمال کروں ۔
بچھڑے ہؤں کی اب میں مصیبت رقم کروں ۔
رو دو اگر بیاں میں خدا کی قسم کروں ۔
رستے سے جب بھٹک گئے ننھے سوار تھے ۔
تکتے پتا کو چاروں طرف بار بار تھے ۔

(بہر-اے-دوات=دوات لئی، بہم=اکٹھا،
چاک=چیرنا، رقم=لکھنا)

48

دادی سے بولے اپنے سپاہی کدھر گئے ۔
دریا پِ ہم کو چھوڑ کے راہی کدھر گئے ۔
تڑپا کے ہائِ صورتَ-اے-ماہی کدھر گئے ۔
ابا بھگا کے لشکر-اے-شاہی کدھر گئے ۔
بھائی بھی ہم کو بھول گئے شوق-اے-جنگ میں ۔
اپنا خیال تک نہیں ذوق-اے-تفنگ میں ۔

(صورتَ-اے-ماہی=مچھی وانگ)

49

جب رن اجیت جیت کے تشریف لائینگے ۔
ابا کے ساتھ جس گھڑی ججھار آئینگے ۔
کرکے گلہ ہر ایک سے ہم روٹھ جائینگے ۔
ماتا کبھی، پتا کبھی بھائی منائینگے ۔
ہمے گلے لگا کے کہینگے وہ بار بار ۔
مان جاؤ لیکن ہم نہیں مانینگے زنہار ۔

(زنہار=بالکل)

50

اقرار لینگے سب سے بھلانا نہ پھر کبھی ۔
بار-اے-دگر بچھڑ کے ستانا نہ پھر کبھی ۔
ہم کو اکیلے چھوڑ کے جانا نہ پھر کبھی ۔
کہ دیتے ہیں یوں ہم کو رلانا نہ پھر کبھی ۔
بچوں کی گفتگو جو سنی دادی جان نے ۔
بیئختیار رو دییا اس والا-شانہ نے ۔

(بار-اے-دگر=دوجی وار، والا-شانہ=
اچی شان والے)

51

کہتی تھیں جی میں لے کے انھیں کس طرف کو جاؤں ۔
بیٹے کو اور بہوؤں کو یارب میں کیسے پاؤں ۔
لخت-اے-جگر کے لال یہ دونوں کہاں چھپاؤں ۔
ترکوں سے، راجپوتوں سے کیوں کر انھیں بچاؤں ۔
بپتا زیئفیؤں میں یہ کیا مجھ پِ پڑ گئی ۔
تھی کون سی گھڑی میں پسر سے بچھڑ گئی ۔

(زیئفیؤں=بڈھیپا)

52

بچوں کا ساتھ راہ کٹھن سر پِ شام ہے ۔
سنسان دست چارسو ہو کا مقام ہے ۔
ہوتا کہاں پِ دیکھیئے شب کو کیام ہے ۔
خادم ہے اور کوئی نہ ہمرہ غلام ہے ۔
گنگو رسوئییا ہے فقط ساتھ رہ گیا ۔
لے دے کے رہبری کو یہ ہییات رہ گیا ۔

(دست=جنگل، چارسو=چارے پاسے، ہو=ڈر،
رہبری=راہ وکھاؤنا، ہییات=افسوس)

53

اعتے تھے شیر سامنے گردن کو ڈال کے ۔
تکتے ہرن بھی آج ہیں آنکھیں نکال کے ۔
نورنگ ہیں تمام زمانے کی چال کے ۔
طیور ہیں بن میں بدلے ہوئے ہر شگال کے ۔
درپیش عنقریب کوئی امتحان ہے ۔
خطرے میں دکھ رہی مجھے بچوں کی جان ہے ۔

(نورنگ=چھل،جادوگری، شگال=گدڑ،
درپیش=سامھنے)

54

پورا ضرور ہوگا ارادہ ہزور کا ۔
کرتا پرکھ کا، واہگورو کا، گفور کا ۔
ہے سخت امتہاں یہ کسی بیکسور کا ۔
حافظ تو آپ ہی ہے دل-اے-ناسبور کا ۔
پیارے پتی کو پہلے ہی میں ہوں کٹا چکی ۔
قدرت تری ہے صبر مرا آزما چکی ۔

(گفور=بخشنہار، حافظ=راکھا، ناسبور=
بے چین)

55

لیکن یہ دو ثمر ہیں مرے نو-نہال کے ۔
بیٹے ہیں دونوں سرور-اے-فوج-اے-اکال کے ۔
رکھ کر انھیں کلیجے میں آنکھوں میں ڈال کے ۔
بیٹے کی لے کے جاؤں امانت سنبھال کے ۔
بیٹے کا مال ہے یہ بہو کی کمائی ہے ۔
ہے میری لاکھ پھر بھی یہ دولت پرائی ہے ۔

(ثمر=پھل، سرور=سردار)

56

منظور اس گھڑی جو تجھے امتحان ہے ۔
حاضر بجائ پوتوں کے دادی کی جان ہے ۔
ہوں سرخرو بہو سے یہی دل میں دھیان ہے ۔
بینکا ن ان کا بال ہو ڈر یہ ہر آن ہے ۔
ورنہ جواب دونگی میں کیا ان کے باپ کو ۔
صدقے کروں میں ان کے سروں پر سے آپ کو ۔

57

گنگو رسوئییے نے جو دیکھا یہ ازتراب ۔
ماتا سے ستگورو کی کییا اس نے یہ خطاب ۔
گاؤں مرا قریب ہے چلیئے وہاں جناب ۔
باگیں اٹھا کے آئیے پیچھے مرے شتاب ۔
کھیڑی میں جا براجے یہ ال-قصہ شام کو ۔
کوٹھا براہمن نے دییا اک کیام کو ۔

(ازتراب=پریشانی، شتاب=چھیتی،
ال-قصہ=مختصر قصہ،کیام=رہن)

58

دن بھر کی دوڑ دھوپ سے سب کو تھکان تھا ۔
مہفوز ہر ترہ سے بزاہر مکان تھا ۔
برسوں سے جسے کھلایا تھا وہ میزبان تھا ۔
خطرے کا اس وجہ نہیں وہم-او-گمان تھا ۔
نوکر کا گھر سمجھ کے وہ بے فکر ہو گئے ۔
لگ کر گلے سے دادی کے شہزادے سو گئے ۔

(مہفوز=سرکھات، بزاہر=دیکھن نوں)

59

ماتا کے ساتھ ڈبہ تھا اک زیورات کا ۔
للچا جسے تھا دیکھ کے جی بد-صفات کا ۔
کہتے ہیں جب کہ وقت ہوا آدھی رات کا ۔
جی میں کییا ن خوف کچھ آقا کی مات کا ۔
مہروں کا بدرا اور وہ ڈبہ اڑا گیا ۔
دھوکھے سے برہمن وہ خزانہ چرا گیا ۔

(بد-صفات=اؤگناں بھریا، آقا=مالک،
بدرا=روپئے رکھن والا تھیلا)

60

بدذات بد-صفات وہ گنگو نمک-حرام ۔
ٹکڑوں کے ستگورو کے جو پلتا رہا مدام ۔
گھر لے کے شہزادوں کو آیا جو بدلگام ۔
تھا زر کے لوٹنے کو کییا سب یہ انتجام ۔
دنییا میں اپنے نام کو بدنام کر گیا ۔
دشمن بھی جو ن کرتا وہ یہ کام کر گیا ۔

(مدام=سدا، بدلگام=آپ ہدرا)

61

الکسا جب سویر کو جاگیں گورو کی ماں ۔
رکھے ہوئے خزانے کا پایا نہ کچھ نشاں ۔
گنگو سے بولیں لیتا ہے کیوں صبر-اے-بیکساں ۔
زر لے گیا اٹھا کے تو اے زشت-روت کہاں ۔
بہتر تھا مانگ لیتا تو ہم سے تمام مال ۔
لیکن ہوا چرانے سے تجھ پر حرام مال ۔

(بیکساں=بے سہارا، زشت-روت=برے منہ والا)

62

جس گھر کا تو غلام تھا اس سے دغا کییا ۔
لا کر کے گھر میں کام یہ کیا بے وفا کییا ۔
زر کے لیئے سوال نہ کیوں برملا کییا ۔
ہم سے تو جس نے جو بھی ہے مانگا عطا کییا ۔
ماتا ہوں کلغیدھر کی تجھے کیا خبر نہ تھی ۔
تیری ترہ تو مجھکو ذرا حرص-اے-زررس نہ تھی ۔

(برملا=صاف صاف، عطا=بخشنا، حرص-
اے-زر=دھن دا لوبھ)

63

واہگورو کے نام پِ کل مال-او-زرل بھی دوں ۔
خلکت کے فائدے کو لٹا اپنا گھر بھی دوں ۔
گردن پتی کی دے ہی چکی اپنا سر بھی دوں ۔
خشنودی-اے-اکالدی کو لخت-اے-جگر بھی دوں ۔
اقرار کر لے اپنی خطا تو اگر ابھی ۔
ہم بخش دینگے شوق سے مال-او-زرل ابھی ۔

(خلکت=لوک، خوش نودی=خوشی)

64

اپدیش مات گزری کا سنکر وہ بے-حیا ۔
شرمندہ ہونے کی جگہ چلانے لگ گیا ۔
بکتا تھا زور زور سے دیکھو غضب ہے کیا ۔
تم کو پناہ دینے کی کیا تھی یہی جزا ۔
فرتے ہو جاں چھپائے ہوئے خود نواب سے ۔
کہتے ہو مجھ کو چور یہ پھر کس حساب سے ۔

(جزا=بدلہ)

65

چپ چاپ گھر سے چل دییا پھر وہ نمک حرام ۔
پہنچا وہ اس جگہ پِ مورنڈا تھا جس کا نام ۔
مخبر وہاں نواب کے رکھتے تھے کچھ کیام ۔
خفییا کچھ ان سے کرنے لگا بدسیر کلام ۔
مطلب تھا جس کا، گھر مرے ستگور کے لال ہیں ۔
جن کے پکڑنے کے سبھی خاہاں کمال ہے ۔

(مخبر=جسوس، بدسیر=بری نیت والا،
خاہاں=چاہوان، کمال=بہت زیادہ)

66

راجوں سے اور نواب سے دلواؤ گر انعام ۔
آقا کی ماں کو، بیٹوں کو پکڑاؤں لاکلام ۔
پا کے صلہ بجید سے تم بھی ہو شاد-کام ۔
مجھ کو بھی خلئتوں سے کرے فائزلمرام ۔
الکسا لے کے ساتھ وہ جاسوس آ گیا ۔
پکڑانے شاہزادوں کو منحوس آ گیا ۔

(لاکلام=بے شک، شاد-کام=مراد پا کے
خوش ہونا، فائزلمرام=مراد پا ک
فائدہ ہونا)

67

بچے جنھوں نے آ کے گرفتار کر لیئے ۔
قابو بجبر بیکس-او-بییار کر لیئے ۔
قبضے میں اپنے دو در-اے-شہوار کر لیئے ۔
سرہند ساتھ چلنے کو تییار کر لیئے ۔
پینس تھی، پالکی تھی نہ ہودا اماری تھی ۔
بدبخت لائے بیل کی گاڑی سواری تھی ۔

(بجبر=زبردستی، بیکس-او-بییار=
بے سہارا تے بناں دوست، در-اے-شہوار=
بادشاہاں دے یوگ موتی، پینس= پالکی،
ہودا اماری=اٹھ دا ہودا)

68

سرہند جا کے پہنچے ہزار ازتراب سے ۔
دو-چار، ہائِ ! جب ہوئے ظالم نواب سے ۔
کمبخت دیکھتے ہی یہ بولا عتاب سے ۔
فلحال ان کو قید میں رکھو عذابِ سے ۔
گمبد تھا جس مکاں میں مکید ہزور تھے ۔
دو چاند اک برج میں رکھتے ظہور تھے ۔

(ازتراب=پریشانی، دو-چار ہونا=ملنا،
عتاب=غصہ، مکید=قیدی، ظہور=
پرگٹائ)

69

قید-اے-بلا میں تیسرا دن تھا جناب کو ۔
بے آب کر چکی تھی عطش ہر گلاب کو ۔
ترسے ہوئے تھے رزق کو جی اور خواب کو ۔
اس روز سچانند یہ بولا نواب کو ۔
منگوا کے کلغیدھر کے پسر انتقام لو ۔
معصوم انھیں سمجھ کے دیا سے نہ کام لو ۔

(عطش=پیاس، خواب=نیند، پسر=پتر،
انتقام=بدلہ)

70

بولا وہ سچانند سے لو آ انھیں شتاب ۔
چرکوں سے ستگورو کے جگر ہے مرا کباب ۔
گوبند نے گنوا دییا سب میرا رئب داب ۔
راجے کے ساتھ میری بھی مٹی ہوئی خراب ۔
دشمن کے بچے قتل کرونگا ضرور میں ۔
کہنے پِ تیرے آج چلونگا ضرور میں ۔

(شتاب=چھیتی، چرک=جھانسا)

71

بچوں کو لینے آئے غرض چند بے حیا ۔
سردار ان کا کہتے ہیں کہ سچانند تھا ۔
ماتا نے دیکھ کر کہا، "ہے ہے غضب ہوا ۔
بس آن پہنچا سر پِ ہے موقع جدائی کا ۔
دیکھونگی عمر بھر کو نہ یہ پیاری صورتیں ۔
مٹی میں ملنے والی ہیں میں واری صورتیں ۔

72

"جانے سے پہلے آؤ گلے سے لگا تو لوں ۔
کیسوں کو کنگھی کر دوں ذرا منہ دھلا تو لوں ۔
پیارے سروں پے ننھی سی کلغی سجا تو لوں ۔
مرنے سے پہلے تم کو میں دولھا بنا تو لوں ۔"
رو رو کے مات گزری نے آراستا کییا ۔
تیر-او-کماں سے، تیغ سے پیراستا کییا ۔

(آراستا،پیراستا=سجایا)

73

"بیٹے سے پہلے بچھڑی تھی تم بھی بچھڑ چلے ۔
بگڑے ہوئے نصیب زیادہ بگڑ چلے ۔
بے رحم دشمنوں کے تم ہاتھوں میں پڑ چلے ۔
زنجیر-اے-غمجیر میں مجھ کو یہاں پر جکڑ چلے ۔
بہتر تھا تم سے پہلے میں دیتی پران کو ۔
دکھ سے تمھارے دکھ ہے سوا میری جان کو ۔"

74

کہ کہ کے روتی تھیں زاروکتار مات ۔
زوراور اور فتہ پِ ہوتی نثار مات ۔
اس درجہ رنج-او-غمج سے ہئیں بے قرار مات ۔
غم کھا کے گرنے والی تھیں بے اختیار مات ۔
شہزادغاں نے بڑھ کے سمبھالا ہزور کو ۔
ڈھارس بندھائی کہ کے دل-اے-ناسبور کو ۔

(زاروکتار=جار جار، بہت زیادہ)

75

فرمائے دست بستا وہ دونوں گورو کے لال ۔
جی کیوں مقدس کا ہے اپنے لییے نڈھال ۔
قربانیوں کی پنتھ کو حاجت بھی ہو کمال ۔
جاں سی حقیر چیز کا پھر ہم کو ہو خیال ۔
واہگورو سے جان پیاری نہیں ہمیں ۔
بھاتی یہ آہ-او-زاری تمھاری نہیں ہمیں ۔

(دست بستا=ہتھ بنھ کے، مقدس=پوتر،
حاجت=لوڑ، کمال=زیادہ، حقیر=تچھّ،
آہ-او-زاری=رونا دھونا)

76

رخصت دو اب خوشی سے کہ جانیں فدا کریں ۔
دنییا سے جب-او-زور کا ہم خاتمہ کریں ۔
حاصل سروں کو دے کے خدا کی رضا کریں ۔
نام اپنے باپ دادے کا مر کر سوا کریں ۔
گریا کو ضبط کر کے بہت عالی-شان نے ۔
"واری گئی لو جاؤ" کہا دادی جان نے ۔

(فدا=قربان، جب-او-زور=زور ظلم،
گریا=رون)

77

لینے جو لوگ آئے جلوم-او-جہل تھے ۔
انساں کا جام پہنے ہوئے وہ فضول تھے ۔
چلنے میں دیر کرنے سے ہوتے ملول تھے ۔
اس دم گھرے ہوئے گویا کانٹوں میں پھول تھے ۔
تسلیم کر کے دادی سے بچے جدا ہوئے ۔
دربار میں نواب کے داخل وہ آ ہوئے ۔

(جلوم-او-جہل=ظالم تے جاہل)

78

تھی پیاری صورتوں سے سزائت برس رہی ۔
ننھی سی صورتوں سے تھی زرئت برس رہی ۔
رخ پر نواب کے تھی شکاوت برس رہی ۔
راجوں کے منہ پِ صاف تھی لعنت برس رہی ۔
بچوں کا رئب چھا گیا ہر اک مشیر پر ۔
لرزا سا پڑ گیا تھا امیر-او-وزیر پر ۔

(سزائت=بیرتا، شکاوت=بدبختی، مشیر=
درباری، لرزا=کانبا)

79

ناظم کی بات بات پے رکنے لگی زباں ۔
خود کو سنبھال کر کے وہ کہنے لگا کہ ہاں ۔
خاہاں ہو موت کہ یا تمھیں چاہییے اماں ۔
بتلاؤ صاف صاف اب اے عالی-خانداں ۔
اس دم کرو قبول اگر شاہ کے دین کو ۔
پھر آسماں بنا دوں تمھاری زمین کو ۔

(ناظم=صوبہ، خاہاں=اچھک، اماں=شرن)

80

ستگور کے لاڈلوں نے دییا رئب سے جواب ۔
آتی نہیں شرم ہے ذرا تجھ کو اے نواب ۔
دنییا کے پیچھے کرتا ہے کیوں دین کو خراب ۔
کس جا لکھا ہے ظلم، دکھا تو ہمیں کتاب ۔
تعلیم زور کی کہیں قرآن میں نہیں ۔
خوبی تمھارے شاہ کے ایمان میں نہیں ۔

81

اورنگزیب ڈرتا نہیں ہے گناہ سے ۔
بیکس کے ازتراب سے دکھییوں کی آہ سے ۔
مذہب بدل رہا ہے وہ زور-اے-سپاہ سے ۔
فیلانا دین پاپ ہے جبر-او-کراہ سے ۔
لکھا ہے صاف صاف تمھاری کتاب میں ۔
فیلاؤ دیں بجبر نہ تم شیخ-او-شعب میں ۔

(جبر-او-کراہ=جبر نال بناں مرضی دے،
شیخ-او-شعب=بڈھے تے جوان)

82

پڑھکے قرآن باپ کو کرتا جو قید ہو ۔
مرنا پتا کا جس کو خوشی کی نوید ہو ۔
قتل-اے-برادرا جسے معمولی سید ہو ۔
نیکی کی اس سے خلق کو پھر کیا امید ہو ۔
غیروں پِ پھر وہ زور کرے یا زپھا کرے ۔
ہم کیا کہیں کسی کو ہدایت خدا کرے ۔

(نوید=خبر، سید=شکار، زپھا=ظلم،
ہدایت=سمتّ)

83

حد سے بڑھا ہوا ہی جو ظالم بشر ہوا ۔
مولٰی کا خوف جس کو نہ ہادی کا ڈر ہوا ۔
مسلم کہاں کے ہائے جو کوتاہ نظر ہوا ۔
سرمد کے قتل سے بھی نہ جس کو ہزر ہوا ۔
بلوا کے دلی تیغ بہادر کی جان لی ۔
مرنے کی ہم نے بھی ہے جبھی آن ٹھان لی ۔

(بشر=منکھ، ہادی=حضرت محمد صاحب،
کوتاہ=تنگ، آن=تتکال)

84

ظالم کا دین کس لیئے کرنے لگا قبول ۔
تبدیلیئے مذہب سے نہیں کچھ بھی ہے حصول ۔
توحید کے سوا ہیں یہ باتیں ہی سب فضول ۔
منوانے واہگورو کو ہی آئے تھے سب رسول ۔
کچھ بت-پرست بھی نہیں ہیں، بت-شکن ہیں ہم ۔
امرت چھکا ہے جب سے نہایت مغن ہیں ہم ۔

(حصول=لابھ، توحید=ربّ اک ہے، رسول=
اوتار، شکن=توڑنا)

85

کر لے مقابلہ تو ذرا اپنے شاہ سے ۔
پاپی ہے وہ تو ہم ہیں بری ہر گناہ سے ۔
اس نے فریب کھیلا تھا پشت-اے-پناہ سے ۔
مرنے پتا کے واسطے ہم آئے چاہ سے ۔
کام اس نے بھائییوں سے کییا تھا یزید کا ۔
دارا کا ہے، مراد کا ہے رتبہ شہید کا ۔

(پشت-اے-پناہ=حمایتی)

86

ہم ساتھ چاہتے ہیں اجل کے دہن میں جائیں ۔
مر جائیں بھی تو قبر میں ایک ساتھ ہی کفن میں جائیں ۔
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے باغ-اے-عدن میں جائیں ۔
ماسوموں کے لیئے جو بنا اس چمن میں جائیں ۔
مذہب کو پاتشاہ نے بٹا لگا دییا ۔
ہم نے عمل سے پنتھ کو اچھا بنا دییا ۔

(اجل=موت،دہن=منہ، باغ-اے-عدن=
جتھے خدا نے بابا آدم نوں رکھیا سی)

87

معلوم اب ہوئی تجھے وجہ-اے-فساد ہے۔
ستگور کا شاہ-اے-دلی سے یہ کیوں عناد ہے ۔
مومن ہی کیا نہیں جسے کرتار یاد ہے ۔
ناظم نے سر جھکا کے کہا میرا صاد ہے ۔
نانک سنا ہے میننے کہ بابر کے یار تھے ۔
بابا فرید سے بھی بہت ان کو پیار تھے ۔

(عناد=ویر، صاد=پسند،خوشی)

88

معلوم شاہ سے ہوئی وجہ-اے-مخالفت ۔
راجاؤں سے نہیں ہے بھلا کیوں یگانگت ۔
نانک کے باپ دادے بھی ہندو تھے رکھتے مت ۔
ستگور بناتے رہتے ہیں کیوں کوہییوں کی گت ۔
بچوں نے پھر جواب دییا بایزید کو ۔
ہو پاک جو پسند کرے کیوں پلید کو ۔

(یگانگت=اپنت،ایکا، کوہییوں=پہاڑیئے،
پلید=پلیت،گندہ)

89

آلائشوں سے کفر کی جو لوگ پاک ہیں ۔
ہیبت سے ظل:جلال کی جو خوفناک ہیں ۔
نیکی سے جن کو انس برائی سے باق ہیں ۔
اپنے وہ رشت:دار وہی سنگ ساک ہیں ۔
بھائی بتوں کو پوجے تو سر اس کا توڑ دیں ۔
سید ہو، برہمن ہو، کوئی بھی ہو، چھوڑ دیں ۔

(آلائشوں=لبیڑ،پاپ، کفر=ناستکتا،
ہیبت=ڈر، ظل:جلال=جلال والا،ربّ،
انس=پیار، باق=ڈر)

90

واہگورو کا لال ہر اک ہم کو پیارا ہے ۔
منکر ہے جو خدا سے وہ دشمن ہمارا ہے ۔
بھگتی اکال پرکھ کی جو بھی پسارا ہے ۔
راجا ہے شاہ ہے ہمیں اس سے کنارہ ہے ۔
کرتار کو رجھائیگا جو پاس ہے وہی ۔
پوجیگا بتوں کو جو بشر ناس ہے وہی ۔

91

دعویٰ خدا کی بندگی کا ہے تمھیں کمال ۔
لیکن ہے مسلموں کا بہت آج غیر حالَ ۔
کبریں جو پوجتے نہ ہوں مومن ہیں خال خال ۔
لایا زوال تم پِ بھی جبھی ست سری اکال ۔
کایل فقط زباں سے ہو تم یا کریم کے ۔
بن بن کے ظلم ڈھاتے ہو بندے رحیم کے ۔

(غیر=بھیڑا، خال خال=ٹاواں ٹاواں، فقط=
کیول، رحیم=رحم کرتا،ربّ)

92

سارے امیر تم میں رؤنت-پسند ہیں ۔
مذہب سے گر گئے وہ جتنے بلند ہیں ۔
رستے بھی معرفت کے جبھی ان پِ بند ہیں ۔
بیسود تم کو اپنی نسائیہ پِ پند ہیں ۔
سنتا ہے کون حرص-او-ہواؤں کے شور میں ۔
اسلام در کتاب مسلماں ہیں گور میں ۔

(رؤنت-پسند=ہنکاری، معرفت=گیان،
نسائیہ=نصیحتاں)

93

روکا جو ظلم سے تو مسلماں بگڑ گئے ۔
بت کو برا کہا تو یہ ہندو بچھڑ گئے ۔
تیغا نکالا ہم نے تو سب جوش جھڑ گئے ۔
چڑییوں سے باز رن میں ندامت سے گڑ گئے ۔
فوجوں پِ نز انھیں، انھیں دیوی کمان ہے ۔
عاشق ہیں ہم خدا کے ہتھیلی پِ جان ہے ۔

(ندامت=شرمندگی)

94

معنا کہ ہم قلیل مخالف کسیر ہیں ۔
تم پاتشاہ ہو راجے ہو اور ہم فقیر ہیں ۔
تم سے ہزاروں بڑھ کے ہیں ہم بے-نظیر ہیں ۔
اپنی نظر میں مال تمھارے حقیر ہیں ۔
پرواہ نہیں ہے بیسر-او-ساماں لڑینگے ۔
ظالم سے بت-پرست سے ہاں ہاں لڑینگے ۔

(قلیل=گھٹّ، مخالف=دشمن، کسیر=
بہت، حقیر=گھٹیا، بیسر-او-ساماں=
خالی ہتھ)

95

طوبہ کرو تو تخت تمھارے بنے رہیں ۔
افسر یہ شاہی رخت تمھارے بنے رہیں ۔
بگڑو نہ ہم سے بخت تمھارے بنے رہیں ۔
اے وائے دل جو سخت تمھارے بنے رہیں ۔
سرکش سے بر کرنا ہے عادت غفور کی ۔
سمجھو تمھیں سجھاتے ہیں ہم بات دور کی ۔

(سامان،پونجی، وائے=افسوس، غفور=
بخشن-ہارا)

96

سچ کو مٹاؤگے تو مٹوگے جہان سے ۔
ڈرتا نہیں اکال شہنشہ کی شان سے ۔
اپدیش ہمارا سن لو ذرا دل کے قان سے ۔
ہم کہ رہے ہیں تم کو خدا کی زبان سے ۔
باز آؤ شر سے ہندو-او-مسلم ہو کوئی ہو ۔
پنڈت ہو، مولوی ہو یا عالم ہو کوئی ہو ۔

(شر=برائی، عالم=ودوان)

97

امرت بزور تم کو چھکانا نہیں ہمیں ۔
ہاں سکھ باجبر تم کو بنانا نہیں ہمیں ۔
بھاتا کسی کے دل کو دکھانا نہیں ہمیں ۔
لڑ بھڑ کے جمع کرنا خزانہ نہیں ہمیں ۔
شاہی ہیں اپنے ٹھاٹھ مگر یوں فقیر ہیں ۔
نانک کی ترہ ہندو-او-مسلم کے پیر ہیں ۔

98

تقریر-اے-دل-پزیرر سے گم سب کے ہوش تھے ۔
نیچی نظر ہر اک کی تھی استادہ گوش تھے ۔
بچوں کے سامنے سبھی دانا خاموش تھے ۔
ناظم کے جی میں بگز ہی تھا اب نہ جوش تھے ۔
اتنے میں سچا نند وہ دیوان-اے-نابکار ۔
جھنجھلا کے بولا ہائِ وہ شیطان-اے-نابکار ۔

(دل-پزیر=دل نوں لبھاؤن والی،
استادہ=کھڑے، گوش=کنّ، نابکار=نا لایق)

99

کیا خوب ہے نواب بھی باتوں میں آ گئے ۔
اس بت-شکن کے بچوں کی گھاتوں میں آ گئے ۔
سردار ہو کے آپ بھی لاتوں میں آ گئے ۔
سمبھلو کہیں زوال کے ہاتھوں میں آ گئے ۔
کہتے ہیں یہ برا شہ-اے-ہندوستان کو ۔
تم دیکھتے ہو رہم سے کیوں ان کی جان کو ۔

(زوال=پتن)

100

کھینچو زبانیں بر-سر-اے-بربار ایسوں کی ۔
میرا جو بس چلے ہے سزا دار ایسوں کی ۔
دلی میں جو رپٹ سنے سرکار ایسوں کی ۔
ناہک کو ہم پِ آ پڑے پھٹکار ایسوں کی ۔
تقدیر پھر گئی ہے تو کچھ اپنا بس نہیں ۔
ان پر دہائی رام کی خانا ترس نہیں ۔

(بر-سر-اے-بربار=بھرے دربار وچّ،
دار=پھانسی، ناہک=فضول)

101

ایسا نہ ہو کہ تخت سے تختہ نصیب ہو ۔
دشمن تمھاری جان کا ہر اک حبیب ہو ۔
تم عالی-خانداں ہو، شریف-او-نجیب ہو ۔
دیکھو بچا رہا ہوں گڑے کے قریب ہو ۔
کیوں رہم کرکے لیتے ہو دوزخ جہان میں ۔
جوڑے ہوئے ہے تیر مقدرج کمان میں ۔

(حبیب=دوست، نجیب=اصیل)

102

منظور جب کہ سانپ کا سر بھی ہے توڑنا ۔
بیجا ہے پھر تو بچہ-اے-اپھئیا کو چھوڑنا ۔
دسویں گورو کا ہے جو خزانہ بٹورنا ۔
بچے کی پہلے باپ سے گردن مروڑنا ۔
ناظم تھا اس لیین کی باتوں میں آ گیا ۔
بے مہر بیدھرم کی تھا گھاتوں میں آ گیا ۔

(اپھئی=سپّ، لیین=لانھتی)

103

دو بھائی شیر خان-او-خضر خاں پٹھان تھے ۔
ملیر-کوٹلہ کے جو مشہور خان تھے ۔
اک روز آ کے رن میں لڑے کچھ جوان تھے ۔
گوبند ان کے باپ کی لے بیٹھے جان تھے ۔
ناظم نے، سچا نند نے ان سے کہا کہ لو ۔
بدلہ پدر کا ان کے لہو کو بہا کے لو ۔

104

کہنے لگے وہ تم تو نہایت ذلیل ہو ۔
نامردی کی بتاتے جری کو سبیل ہو ۔
مختار تم ہمارے ہو یا تم وکیل ہو ؟
ناہک بیان کرتے جو بودی دلیل ہو ۔
بدلہ ہی لینا ہوگا تو ہم لینگے باپ سے ۔
مہفوس رکھے ہم کو خدا ایسے پاپ سے ۔

(نہایت ذلیل=بہت ہی کمینہ،جری=
بہادر، سبیل=طریقہ)

105

جھاڑو سا کھا کے دونوں شرمسار ہو گئے ۔
جلاد سارے قتل سے بے زار ہو گئے ۔
زیادا دلیر پھر ستم-آزار ہو گئے ۔
دیوار میں چننے کو تییار ہو گئے ۔
اینٹیں منگائی چونا بھی فوراً بہم کییا ۔
یارا نہیں بیان کا پھر جو ستم کییا ۔

(بے زار=بے دل، آزار=ظالم، بہم=
اکٹھا، یارا=طاقت)

106

لپکے لئین دونوں وہ شہشادگان پر ۔
حملہ کییا زلیلوں نے ہر عالیشان پر ۔
تھا ان کا قصہ لے کے چلیں اب مچان پر ۔
بنیاد تھی دھرم کی خودی جس مکان پر ۔
ستگور کے لال بولے، "نہ چھونا ہمارے ہاتھ ۔
گڑنے ہم آج زندہ چلینگے خوشی کے ساتھ ۔"

107

ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے دونوں وہ نونہال ۔
کہتے ہئے زباں سے بڑھے ست سری اکال ۔
چہروں پِ غم کا نام نہ تھا اور نہ تھا ملال ۔
جا ٹھہرے سر پِ موت کے پھر بھی نہ تھا خیال ۔
جس دم گلے گلے تھے وہ معصوم گڑ گئے ۔
دن چھپنے بھی نہ پایا کہ قاتل اجڑ گئے ۔

108

دیوار کے دباؤ سے جب حبس-اے-دمس ہوا ۔
دوران-اے-خونان رکنے لگا، سانس کم ہوا ۔
فرمائے دونوں ہم پِ بزاہر ستم ہوا ۔
باطن میں پنتھ پر ہے خدا کا کرم ہوا ۔
صد سال اور جی کے بھی مرنا ضرور تھا ۔
سر قوم سے بچانا یہ غیرت سے دور تھا ۔

(حبس-اے-دمس=دم گھٹنا، باطن=اندرونی
طور تے، صد=سو)

109

ہم جان دے کے اؤروں کی جانیں بچا چلے ۔
سکھی کی نینو ہم ہیں سروں پر اٹھا چلے ۔
گریائی کا ہیں قصہ جہاں میں بنا چلے ۔
سنگھوں کی سلطنت کا ہیں پودا لگا چلے ۔
گدی سے تاج-او-تخت بس اب قوم پائیگی ۔
دنییا سے زالموں کا نشاں تک مٹائیگی ۔

110

ٹھوڈی تک اینٹیں چن دی گئیں منہ تک آ گئیں ۔
بینی کو ڈھانپتے ہی وہ آنکھوں پِ چھا گئیں ۔
ہر چاند سی جبین کو گھن سا لگا گئیں ۔
لخت-اے-جگر گورو کے وہ دونوں چھپا گئیں ۔
جوگی جی اس کے بعد ہوئی تھوڑی دیر تھی ۔
بستی سرہند شہر کی اینٹوں کا ڈھیر تھی ۔

(جبین=متھا، گھن=گرہن، لخت-اے-جگر=
جگر دے ٹکڑے)