کہاں تو تی تھا چراغاں ہریک گھر کے لئے،
کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لئے ۔
یہاں درختوں کے سایے میں دھوپ لگتی ہے،
چلو یہاں سے چلیں اور عمر بھر کے لئے ۔
ن ہو قمیض تو پانو سے پیٹ ڈھنک لینگے،
یہ لوگ کتنے مناسب ہیں، اس سفر کے لئے ۔
خدا نہیں، ن صحیح، آدمی کا خواب صحیح،
کوئی حسین نظارہ تو ہے نظر کے لئے ۔
وے متمئین ہیں کہ پتھر پگھل نہیں سکتا،
میں بے قرار ہوں آواز میں اثر کے لئے ۔
تیرا نظام ہے صلع دے زبان شایر کی،
یہ ایہتیات ضروری ہے اس بہر کے لئے ۔
جئیں تو اپنے بغیچے میں گل موہر کے طلے،
مریں تو غیر کی گلیوں میں گل موہر کے لئے ۔
(متمئین=سنتشٹ)